کشمیر میں استصواب راۓ کے مطالبے پر نظر ثانی کی ضرورت پارٹ ۲

Posted on at


 

آج کے حالات میں استصواب راۓ جموں کشمیر کے عوام کی خواہشات کی تکمیل کا واحد ذریعہ نہیں۔ بہت سے کشمیری اب شائد آزادی کے حق میں ہوں جبکہ ۱۹۴۸ میں وہ اسکے حامی نہ رہے۔ استصواب راۓ کے نتیجے میں برصغیر میں فرقہ وارانہ فسادات کی ایسی ہی خوفناک لہر دوڑنے کا امکان ہے۔ جیسی کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے گجرات میں دیکھنے میں آئی۔ مزید براں سیاسی سطح پر اقوام متحدہ سمیت ایسا کوئی ادارہ نہیں جو کہ راۓ شماری کرانے کا ذمہ لے سکے۔ ایسے ناممکن حل پر اڑے رہنے سے کشمیر میں خوں ریزی اور پاکستان اور ہندوستان کے مابین محاذ آرائی جاری رہے گی۔

کشمیر کے بارے میں لچک دکھا کر پرویز مشرف جارج بش کے احکامات کی بجا آوری کر رہے ہیں۔ لیکن اس احمقانہ نقطہ نظر سے کہ ہر چیز واشنگٹن کے حکم پر ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت نگاہ سے اوجھل ہو جاتی ہے کہ پاکستان کو کشمیر پالیسی پر نظر ثانی کی کڑوی گولی اس پالیسی کی ناکامی کی بنا پر نگلنی ہو گی۔ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف کی بین الاقوامی حمایت میں بے انتہا کمی واقع ہوئی ہے۔ مسلم ممالک اور اسلامی ممالک  کی تنظیم قراردادیں پاس کرنے کی حد تک بھی نیم دلانہ رویہ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ مسلم ممالک کی تجارت انکی پاکستان کے ساتھ تجارت کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ ہے۔ مشرق وسطٰی کے ممالک میں ہندوستانی محنت کشوں خاص طور ہنر مند افرادی قوت کے لیئے دروازے کھلے ہوۓ ہیں۔ جبکہ پاکستانیوں کے لیئے وہاں ملازمتیں حاصل کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ یورپی ممالک کشمیر میں پاکستان کی کاروائیوں سے اتفاق نہیں کرتے۔

پاکستان کے قریبی ہمساۓ ایران اور چین جہاد کے ذریعے کشمیر کو آزاد کرانے کی پالیسی سے سخت نالاں ہے۔ افغانستان جسے پاکستانی جرنیلوں نے ہمیشہ سے کچھ نہیں سمجھا۔ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوۓ کہ ہندوستان پرو پیگنڈہ کی جنگ میں پاکستان سے بازی لے گیا۔ ہمارے ملک کے سخت گیر عناصر نے اسکو پاکستانی کی سفارتی مشنز کی ناکامی پر محمول کیا ہے۔ یہ سرا سر غلط ہے۔ پاکستانی سفارت کار اور سفارت خانوں کے اہلکار بھر پور کوشش کے باوجود کامیابی سے ایک ایسی پالیسی کا دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔ جو کہ محض ہندوستان کا زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کرنے پر مبنی ہے۔



About the author

160