افغانستان اور عراق پر امریکی قبضے اور اس حوالے سے ایک نئے نو آبادیاتی دور کے آغاز کی بات کی جاتی ہے۔ گو کہ پچھلی صدی میں کئی آزاد مسلم مملکتیں دنیا کے نقشے پر وجود میں آئیں۔ لیکن جب ان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جاۓ تو ایک بات بالکل واضح صورت میں سامنے آتی ہے کہ صرف ایک دو ممالک میں آزادی کے حصول کے لیئے تحریکیں چلائی گئی۔ دیگر تمام مسلم ممالک میں مغربی طاقتوں کا تسلط کسی نہ کسی شکل میں قائم رہا۔
مشرق وسطیٰ کے بیشتر ممالک نے برطانوی حکومت کی آشیر آباد کے ساتھ سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی۔ یہ برطانیہ اور فرانس کے خلاف جد وجہد آزادی ہر گز نہ تھی۔ بلکہ مغربی طاقتوں کے مفادات کی حمایت کی جنگ تھی۔ ان قوتوں نے عرب خطے کو مختلف مملکتوں کی حیثیت دے کر ان پر شریف حسین کے کسی بیٹے کو مسلط کر دیا۔ کسی شیخ یا امیر کو اپنا نائب مقرر کر دیا
اہل عراق کے لیئے امیر فیصل یا ترکی کے تسلط میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اگر کوئی فرق تھا تو صرف یہ تھا کہ ترک حکمران انہیں کم از کم کسی غیر مسلم تسلط سے محفوظ رکھے ہوۓ تھے۔ لیکن ایک عرب امیر نے ان پر انگریز یا فرانسیسی حاکموں کو مسلط کر دیا۔ ایران میں ایک فوجی افسر انگریزوں کی مدد سے اپنے ملک پر قابض ہو کر رضا شاہ بن گیا۔
انگریزوں کے بعد ان ممالک پر امریکا کا تسلط ہوا جس نے بھی سرتابی کی کوشش کی اسکا حشر ایران کے مصدق جیسا ہوا۔ چونکہ بیشتر ممالک میں حکومت ان لوگوں کو منتقل ہوئی تھی جنہوں نے آزادی کی تحریک میں سرے سے کوئی حصہ ہی نہیں لیا تھا۔ اسلیئے وہ آزادی اور خود مختاری کے کسی جزبے کو اپنا نہ سکے۔ ایسے افراد گرو یا پارٹیوں کو اپنے وطن کے ساتھ کوئی قلبی وابستگی نہیں تھی۔ نہ ہی عوام کی بہتری انکا مطمح نظر تھی۔
انکا مقصود و مطلوب محض شوق حکمرانی ہی رہا اس گوہر مقصود کو حاصل کرنے کے لیئے وہ کسی بھی اندرونی یا بیرونی قوت کا آلہ کار بننے کو تیار تھے۔ اس طبقے اور گرو نے بیشتر مسلم ممالک کو انکی حقیقی آزادی سے محروم رکھا۔ پاکستان کے لوگوں کو جو شہری آزادیاں ،حقوق اور سہولیات انگریزی دور حکومت میں حاصل تھیں۔ بعد میں خود اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں میں سلب ہو گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر ممالک میں لوگوں کے دلوں میں اپنے حکمرانوں کے لیئے کوئی قربت پیدا نہ ہو سکی۔