امریکی مداخلت اور پاکستان کی جغرافیائی اہمیت

Posted on at


امریکی مداخلت اور پاکستان کی جغرافیائی اہمیت



قیام پاکستان کے وقت سے ہی ملک خداداد پر نوابوں اور جاگیرداروں کی حکمرانی رہی ہے اور اس پر مسلسل دائمی حمکرانی کا خواب ہے اس مقصد کے لئے دنیا کی سپر پاور امریکہ کا آشیربار   کا سایہ ضروری ہے یہی وجہ ہے ہمارے حکمرانون کا طرز حکمرانی اور غیر متزلزل وفاداری  ان سپر پاور کے نقطہ نظر سے ہم آہنگ اور متفق ہے۔ یہ تعلق اب اٹوٹ بن چکا ہے یہی وجہ  ہے قومی مفادات اور ملکی سلامتی اور بقا کے مقاصد کو اکثر نزر انداز کیا جاتا ہے۔ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے ایک مرتبہ امریکہ کے بین الاقوامی تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا امریکہ کے دشمن تو نقصان اٹھاتے ہی ہیں، امریکہ کے دوست اس سے کہی زیادہ خسارے میں رہتے ہیں۔  گزشتہ تین دہائیاں اس کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ افغان روسی جنگ میں پاکستان کا کردار عین امریکی نقطہ نظر کے مطابق تھا اور آج بھی افغانستان پر امریکی حملے اور قبضے  کے مقصد میں بھی امریکہ کا اتحادی ہے۔ بدقسمتی یہ رہی کہ ہمارا حمکران طبقہ اپنا کعبہ و قبلہ اور حکمرانی امریکی کی ہاں میں ہاں ملانے کو ہی سمجھتے ہیں۔ عوامی اور قومی مفادات کو نطر انداز کیا اور جس کی وجہ سے اس ملک کی بہترین جغرافیائی اہمیت سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔



 آج کے دور میں کسی ملک میں وسائل اور تجارت کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ اس کی بدولت ملک کی معاشی اور معاشرتی دنیا میں اہمیت اجاگر ہوتی ہے اور عوام کا معیار زندگی بھی بلند ہوتا ہے۔  پاکستان کی جغرافیائی محل وقوع کی حثییت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جب پاکستان نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا منصوبہ پر دستخط کیئے تو فوراً امریکہ نے اپنا دھونس اور زور دیکھا کر اس منصوبے کو زہر التوا کروا دیا۔



 


اسی طرح ایک اور گیس پائب لائن  جو ترکمانستان سے باراستہ افغانستان سے پاکستان اور انڈیا آنا تھی اس میں بھی امریکہ نے رکاوٹ ڈالی ہوئی ہے اور امریکی دباؤ میں آ کر کوئی بھی کمپنی اس بڑے منصوبے پر کام کرنے اور سرمایہ کاری کرنے سے اکترا رہی ہے اور اب تو سارے حالات امریکہ کے حق میں چلے گئے ہیں امریکی فوج افغانستان سے انخلاء کے بعد بھی اپنے فوجی اڈے قائم رکھے گی اور علاقائی وسائل اور توانائی پر امریکی راج قائم رہے گا۔



پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع کی اہمیت سے ساری دنیا واقف ہے کیونکہ کہ یہ وسط ایشیائی ممالک اور چین کے لئے سستے اور بہترین تجارتی راستوں کا موثر ذریعہ ہے۔


گوادر بندرگاہ کی اہمیت دن بہ دن اجاگر ہو رہی ہے اور حکومت اس پر کام بھی کر رہی ہے ۔  وسط ایشیا اور ایران سے گیس اور تیل کی پائب لائنیں بھی پاکستان سے گزر کر سمندر تک آئیں گی اور اس کا کوئی اور سستا متبادل نہیں ہے۔  پاکستان اس ضمن میں چائنہ کے ساتھ مل کر انرجی کاری ڈور پر کام کر رہا ہے۔  گوادر بندگاہ سے چین تک  رسل و رسائل کے تمام ممکنہ ذرائع یعنی روڑ اور ریلوے ٹریک کے منصوبوں اور ان کی تعمیر و توسیع پر کام جاری ہے لیکن ہمارے دشمن ہر اس موقعے کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے اس شاہراہ قراقرم کے  بعض جہگوں کو متنازعہ بنانے پر تلا ہوا ہے۔



گوادر تک رسائی کے لئے گوادر کوسٹل ہائی وے پر بھی کام ہو رہا ہے اس تجارتی راستے کو مرکزی حثییت حاصل ہو گی۔  



اگر پاکستان کے حکمران عالمی طاقتوں کی آشیر بار کو سمجھتے ہوئے ہوش کے ناخن لیں اور ان تلخ تجربوں سے سبق سیکھ لیں جس کی وجہ سے ہم نے  روسی امریکی جنگ میں امریکی مفادات اور خواہشات کی خاطر نقصانات اٹھائے ہیں۔  ملکی مفادات کو ترجیع بنیادوں پر پایہ تکمیل کو پہنچا دے اور توانائی اور تجارتی امکانات کی ترقی کے لئے روس اور چین کو ترجیح دے تا کہ اس خطہ کے لوگ اپنی زندگیوں کا معیار بلند کرتے ہوئے معاشرے میں پرامن باعزت زندگی گزار سکے اور اس خطہ  کے ممالک کے ساتھ تعلقات سے ملکی ساکھ میں بھی بہتری آئے گی ۔ یہ بات دانائی کی نہیں کہ ایک دوسرے حصے سے کسی مخالف طاقت یعنی امریکہ اور مغربی ممالک برطانیہ ، فرانس، جرمنی وغیرہ کو ملکی مماملات میں ملوث کر کے خطے کے مفادات کو نقصان پہنچایا جائے۔



160