خواتین کی ترقی اور خواتین فلمساز : لینا خان

Posted on at

This post is also available in:

جاسمین ڈیوس

خواتین کی ترقی بہت جگہوں میں شروع ہے۔ کچھ کیلئے یہ کم عمری میں شروع ہوتی ہے کچھ کیلئے یہ ان کے کیرئیر کا حصہ ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اس کیلئے بہت کچھ کرتے ہیں۔ لینا خان ان میں سے ایک ہے۔ اس مسلمان خاتون فلمساز نے یو۔ایل۔سی۔اے سے سیا سیات اور تاریخ میں گریجویشن کی ڈگریاں لی ہیں۔ اور یہ سلسلہ جاری اور آخر کار اِس نے یو۔ایل۔سی۔اے سکول آف تھیٹر فلم اور ٹی وی سے گریجویشن کی۔ جبکہ اس کے کام میں زیادہ تر میوزک وڈیوز اور کمر شلز شامل ہیں آج کل وہ اپنی فیچر فلم (دی ٹائیگر ہنٹر) کے لئے فنڈ اکھٹا کر رہی ہے

تمام کام اور خاص کر آرٹ ترقی کی ایک مستقل شکل ہے۔ ہر ہدایت کار کی فلمیں وقت گزرنے کے ساتھ بہتر ہوتی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میں اپنے کیرئیر کے اس مقام پر پہنچوں گی جہاں میں پروموشن فنڈ ریز یا اِس جیسی اور چیزوں سے زیادہ فنی پہلو پر توجہ دے سکوں۔

اب تک ہر ایک کے تعاون سے میرے خیال میں شا ہد یہ ممکن ہو۔ خان نے ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا:

جیسا کہ خان نے نشاندہی کی ہے کہ پروموٹنگ فلمسازی کے نازک حصے ہوتے ہیں جو ایک خود مختار فلمساز کا اکثر بہت زیادہ وقت لے لیتے ہیں اور یہی بات فلم اینکس جیسے پلیٹ فارمز کیلئے عظمت کا باعث ہے۔ جہاں آپ اپنی فلم کو پروموٹ بھی کرسکتے ہیں اور پیسے بھی کما سکتے ہیں۔ افغانستان اور دنیا کے دوسرے ممالک کی خواتین جِن میں یو۔ایس بھی شامل ہے۔ ترقی کر رہی ہیں اپنی آن لا ئن فلموں کے ذریعے پیسے کما کر۔

خان کہتی ہے کہ فنڈ ریزنگ ہمیشہ اس کے راستے کیا حصہ رہی ہے۔ در حقیقت یہ اسے اس کے کیرئیر میں کچھ بہت دلچسپ جگہوں پہ لے جانے کا باعث بھی بنی ہے۔

چونکہ بعض اوقات میں اتنی آسانی سے نیٹ ورکنگ نہیں کر سکی جسطرح میں چا ہتی تھی مجھے رضا کارانہ طریقے سے ہٹ کر بھی فلم سیٹس کے لئے کچھ چا ہیے ہوتا تھا جیسے کہ اُن کو بیئر خرید کر دینا۔ اس کا مطلب تھا کہ مجھے اپنے پراجیکٹس بنا نے کے قابل بھی ہونے کی ضرورت تھی جسطرح کہ آپ کو کوئی بھی فلم کا طالب علم بتائے گا کہ یہ آسان نہیں ہوتا۔ میں نے اپنی رقم بچائی اور سکرپٹس لکھے اور اس نے مجھے اپنی مختصر فلمیں بنا نے کے قابل کیا اور پھر مجھے کنڑ یکٹس پر میوزک وڈیوز یا کمرشلزبنا نے کا کام ملا۔ اس طرح میں دوسرے لوگوں کو معاوضے پر حاصل کر کے ان کے ساتھ کام کرسکتی تھی اور یہ سینٹ ورکنگ کا بہترین طریقہ تھا۔

جسطرح کہ یہ آرٹیکل بتا تا ہے کہ خان غیر رسمی طریقے سے اتنی آسانی سے نیٹ ورکنگ نہیں کر سکی جسطرح کہ دوسرے لوگ کرتے ہیں وہ کہتی ہے کہ دوسروں کی نسبت اسے بہت زیادہ محنت کرنی پڑی ہے۔ اپنے آپ کو منوانے کیلئے۔ تاہم وہ کہتی ہے۔ جہاں تک مسلمان عورت ہونے کا تعلق ہے۔ ہا ں تعصب بھی ہے اور رکاوٹیں بھی ہیں مسلمانوں اور عورتوں کے لئے فلم انڈیسڑی میں داخل ہونے کے لئے۔ لیکن آپ زندگی میں کہیں نہیں پہنچ پائیں گے اگر آپ اپنے لگے لیبل کی مدد سے خود کو تسلیم کروانا چا ہتے ہیں۔ بلکہ اس کی بنیاد آپ کے کام کے معیار پر ہے اور یہ میرا آخری مقصد ہے

 

 

افغانستان اور دوسرے ممالک کی عورتیں لینا خان جیسی عورتوں سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔ فلم میکنگ افغانستان اور پوری دنیا کی عورتوں کو طاقت دیتی ہے کہ وہ اپنی منفرد کہانیاں بتا سکیں۔ افغان خواتین کی تعلیم افغان ڈیویلپمنٹ پراجیکٹس جیسے اقدام کے ذریعے۔ اہم فلمساز بنا سکتی ہیں۔

محنت اور دلچسپ کہانیاں بعذریہ فلم بنانا ان کے بہت شاندار کیرئیر کا باعث بن سکتا ہے۔



About the author

syedahmad

My name is Sayed Ahmad.I am a free Lancer. I have worked in different fields like {administration,Finance,Accounts,Procurement,Marketing,And HR}.It was my wish to do some thing for women education and women empowerment .Now i am a part of a good team which is working hard for this purpose..

Subscribe 0
160