ریاستی دہشت گردی اور شدت پسندی کا عفریت

Posted on at


ریاستی دہشت گردی اور شدت پسندی کا عفریت


لاھور کے دل سوز اور دل خراش واقعہ نے دل و دماغ میں خیالات اور سوچوں کا ایک طوفان برپا کر دیا ہے جسے عبارت کی شکل میں لانا چاہتا ہوں ۔ وطن عزیز پاکستان میں موجودہ نظام حکومت تو جمہوریت ہے لیکن حقیقت میں بلاواسطہ اب بھی حکومت کا قلم دان جاگیرداروں ، وڈیروں، سرمایہ کاروں کے پاس ہے یہ اشرافیہ جمہوریت کا ڈھونگ رچا کر حکومتی ایوانوں میں براجمان تو ہونا چاہتی ہے لیکن جمہوری روایات کو فروغ دینا نہیں چاہتی نہ جمہوریت چاہتی ہے نہ آمریت، نہ اوردنیا کا کوئی اور مروجہ ریاستی نظام حکومت۔  یہ لوگ وقت کے ساتھ ساتھ قومی اداروں میں اصلاحی تبدیلیاں بھی نہیں چاہتے۔  اِن لوگوں کا ملک میں اثر و رسوخ کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے 1972 میں ذولفقار علی بھٹو نے سوشل ازم کا نعرہ لگایا اور عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دینے کا وعدہ کیا اس نظام کی روح سے ملک کے اندر سارے قومی اور نجی اثاثے چاہیے ساری زمینیں چاہے وہ زرعی ہوں ، بارانی ہو، بنجر ہو جس طرح کی بھی قومی تحویل اور قومی اثاثہ  میں لے لی گئی ۔ اسی طرح تمام صنعتیں، تمام کارخانے تمام بینک اور نجی سطح پر چلنے والے تعلیمی اداریں قومی اثاجات میں شامل کر کے تحویل میں لے لیا گیا۔  یہ کڑوا سچ ہے کہ اس نظام حکومت نے ملک کی معشیت کو تباہ برباد کر کے چھوڑ دیا جو نیا نظام لانے کے لئے بلا شبہ بہت بڑی قومی قربانی تھی لیکن اس نظام کو جاگیرداروں اور صنعت کاروں نے اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے دیا۔ اور 1977 میں فوجی جنرل کے ذریعے ختم کر دیا گیا گو کہ اس ںظام حکومت کو ختم کرنے کے لئے سامراجی طاقتوں کا بھی ہاتھ تھا جس میں امریکہ اور برطانیہ سرفہرست تھے کیوں کہ وہ روس کے ساتھ پہلے ہی سردست سرد جنگ کر رہے تھے۔  اس کے بعد گیارہ سالہ آمرانہ دور میں ملک تعلیمی اور صنعتی ترقی میں بہت پیچے رہ گیا۔  وقتی عوام کی ضروریات زندگی کو پورا کیا جاتا رہا لیکن ملک کی ترقی کے لئے کوئی دیرپا فائدہ مند منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔  ملک میں نام نہاد اسلامی شرعی قوانین کے نفاذ کا نعرہ لگایا گیا اور روس کے خلاف لڑنے کے لئے مدرسوں میں طالب علموں کو جہادی تعلیم دی گئی ملک کے اندر ایک مسلک کے مانے والے کو ترجیح دی گئی جس سے ملک کے اندر فرقہ واریت کو تقویت ملی۔



ریاست کے اندر جمہوری نظام 1988 کے عام انتخابات کے بعد باقائدہ رائج کیا گیا اور 1973 کے آئین کے مطابق سارے قوانین کو دوبارہ نافذ کیا گیا اور حکومتی قلم دان عوامی نمائندوں کو سپرد کیا گیا۔ عام انتخابات میں جدید اصلاحات کے فقدان کی وجہ سے انتخابی دھاندلی کا عنصر غالب رہا عوامی نمائندے اصل میں نام نہاد تھے جو بھیڑوں  کے روپ میں بھیڑیے تھے جس نے جمہوریت کو ملک کے اندر پھلے پھولنے نہ دیا۔  جمہوریت کا نظام ملک کے اندر ابھی تک ایک کمزور  پودے کی شکل میں ہے جس کی جڑے زمین کے اوپر اوپر ہی ہیں۔  جاگیرداروں اور وڈیروں کے پہ در پہ حملے اس پودے کی نمو اور افزائش و حفاظت  کرنے کی بجائے اس پودے کو مذید کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ ملک کے اندر جرائم پیشہ لوگوں کو انہی لوگوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ یہ سرمایہ کار اور جاگیردار اعلیٰ حکومتی عہدوں پر براجمان ہیں جو ان عہدوں کو گدی نشینی اور جان نشینی خیال کرتے ہیں۔   ملک کے اندر بظاہر جمہوریت تو ہے لیکن اندر سے سارے  طور طریقے ابھی تک آمرانہ ہے۔  ملک کے اندر سارے قومی اداریں کمزور ہیں۔  اداروں میں اصلاحات کو جان بوجھ کر دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا۔  نظام عدل ، نظام تعلیم، نظام طب جیسی بنیادی سہولیات اور افادیت سے ابھی تک عوام محروم ہیں۔  جاگیرداری نظام نے ملک کے اندرقومی وسائل کر بروکار نہیں لایا جس سے عوام کو بے روزگار رکھ کر استحصال کیا گیا اور خصوصاً تعلیم یافتہ لوگوں کی جان بوجھ کر حوصلہ شکنی کی گئی۔ یہ ساری چیزیں ریاستی دہشت گردی کے ضمرے میں آتی ہیں جب بھی کوئی بھی کسی عوامی بغاوت نے سر اٹھانے کی کوشش کی اُسے بہزور بازو کچل دیا گیا۔




یاستی دہشت گردی حقیتاً شدت پسندی کا موجب بنتا ہے۔ چند دن پہلے اسی طرح کا ایک افسوس ناک واقعہ لاھور میں ہوا جس میں ایک مذہبی فلاحی اور سیاسی جماعت منہاج القرآن کے آٹھ افراد کو شہید اور سیکڑوں لوگوں کو زخمی کیا گیا۔  اس ریاستی دہشت گردی کی جتنی مزاحمت کی جائے کم ہے۔ ریاستی دہشت گردی کے ایسے   واقعات ملک میں گاہے با گاہے ہوتے رہتے ہیں جو بے رحم سرمایہ دارانہ حکومتوں کے ظلم اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں جس کا نتیجہ ہمیشہ عوام کا قتل عام ہی ہوتا ہے۔  صوبہ ہزارہ کی تحریک کی بغاوت کو کچلنے کے لئے گولی مارنے کا حکم دیا گیا جس میں معصوم و بے گناہ لوگوں کا قتل کیا گیا۔ 



جاگیردار اور سرمایہ دار کا ملک کی سیاست سے اثر و رسوخ کا خاتمہ اداروں میں اصلاحات کرکے ختم کیا جاسکتا ہے الیکشن کمیشن آئین کے مطابق عوامی نمائندوں کی معاشرے میں نیک نامی ، شرافت اور تعلیمی قابلیت کو مدنظر رکھ کر کاغذات نامزدگی قبول کرے اور چناؤ کے طریقہ کار کو آسان اور شفاف جدید طریقوں کو بروئےکار لا کر کرائے تو یقینی طور پر جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں کو قوم و ملک کے لئے پرخطر ناپاک عزائم سے باز رکھا جاسکتا ہے اور اداروں میں آن لائن جید کمپوٹرازڈ ٹیکنالوجی لا کر مضبوط  اور وقت کے تقاضوں اور عوامی امنگوں کے مطابق کر کے ہی قوم و ملک کو صحیح معنوں میں ترقی یافتہ اور فلاحی ریاست بنایا جاسکتا ہے۔ 



ملک میں جب ریاستی دہشت گردی ختم ہو گی اور عدل و انصاف عام ہوگا تعلیم و صحت کی سہولیات عوام کی دلیز تک پہنچے گی ۔ ملک کے اندر باغی قوتیں خود بخود دم ٹوڑ دیں گی۔  ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے آج ملک دنیا اور قوم کے سامنے شرمسار ہے اور دنیا میں تنہا ہے۔  گھر کے اندر کے حالات ٹھیک نہ ہو تو پڑوس سے کیا گلا شکوہ۔   ریاستی دہشت گردی جو وطن دشمن لوگوں کی لابی ہے جس نے معاشرے میں ناانصافیوں اور عدم مساوات کو فروغ دیا  جو عوام کو محب وطن اور یک جان بنانے کی بجائے بغاوت کا موجب بنا ایک ایٹمی ملک ہونے کے باوجود ملک کے ستر ہزار بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا گیا جو باعث شرم ہے اور ایک سو بلین ڈالر کا خطیر مالی نقصان  اُٹھنا پڑا۔  ان سارے عوامل کا درپردہ قصور ریاستی دہشت گردی ہی ہے۔


 



160