رہبر سے رہزن تک

Posted on at


رہبر سے رہزن تک


اللہ گنجے کو ناخن نہ دے ، ایک روزمرہ میں استعمال ہونے والا مقبول محاورہ ہے لیکن اگر یہ مقولہ سچ ثابت ہو جائے تو مشہورضرب المثل بن جاتی ہے کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھیس۔  ہمارے خطے کے ماضی کی قومی سیاست بھی تقریباً انہی محاوروں کے گرد گھومتی رہی ہیں۔ کھری سچی بات کہنے میں  کرواٹ تو ہوتی ہے لیکن حقیقت کا آئینہ دار ہوتی ہے۔   جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں اندورن ملک میں  جمہوری روایات و اقدار کی سنگین خلاف ورزیاں کیں گئی جس میں سب سے زیادہ بڑی غلطی تو عوامی منتخب رہبر کو تخت سے تختہ دار پر لٹکانا تھا۔ بوجہ جس کے ملکی جمہوری سیاست اور معاشی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔  دوسرا فرقہ واریت کو عام کرکے وقتی آمرانہ حکومتی میعاد کو طول دینا تھا لیکن اس فرقہ واریت  کے آسیب نے ملک کے باسیوں کو بجائے مراہات یافتہ طبقے کے خلاف نبرد آزما ہونے کے ایک دوسرے کو دست و گریبان کر دیا اور آج اس سلگتے شعلے نے ملک کے کونے کونے میں بےقابو آگ کی شکل اختیار کر لی ہے ، جو جمہوری حکومتوں کے گلے کی ہڈی بن کر رہ گیا ہے جو نہ نگلی جاسکتی ہے نہ نکالی جاسکتی ہے کیونکہ نام جمہوریت فقط نام نہاد جمہوریت تو نہیں اس کی اعلیٰ اخلاقی اقدار اور ضابطے بھی ہیں جہاں ملک کے شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوتے ہیں وہی ایک دوسرے کے حقوق کا احترام بھی۔



 ، قائد جمہوریت ذوالفقار علی بھٹوکی داستان مقتل گاہ  پڑھیے لنک پر کلک کریں



 


جنرل ضیاء کی حکومت کا دوسرا بڑا غیر قانونی اژدہائی کارنامہ پڑوسی ممالک کے مماملات میں بے جا مداخلت تھی لیکن درپردہ اپنی حکومت کے لئے امریکی سند کا حصول و طوالت تھا جس کے لئے ضیاء کی حکومت نے مسلمہ اصول عدم مداخلت کو بھاری بھر کم  بوٹوں تلے روند دیا ۔ اس طرز عمل نے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کے عوامی مفادات کو بھی شدید نقصان پہنچایا ، اگر عدم مداخلت کا زریں اصول اپنایا جاتا تو آج یہ خطہ دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہ ہوتا بلکہ دنیا کی دھرتی پر ایک خوشحال پرامن ترقی یافتہ علاقہ ہوتا۔  پاکستان کے عوام کے ساتھی تو سب سے بڑا المیہ تعلیمی نصاب کا ہوا جو کسی صورت قومی مفادات کے حصول کے متقاضی نہیں تھا۔ سانئسی طرز فکر کو اجاگر کرنے والی باتیں نصاب سے ختم کر دی گئیں۔ فرقوں کے نظریات کو دینی کتب میں شامل کر دیا گیا۔ دوہرے معیار تعلیم کو فروغ دیا گیا ایک طرف اٹچیسن کالج لاھور جیسے تعلیمی اداروں میں اشرافیہ اپنے سپوتوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کر رہی تھی تو اس کے بلکل متضاد دوسری طرف نصاب میں جہاد بلنفس کی جگہ جہاد بلسیف کے کلچر کو فروغ دینے کے لئے مدرسہ کو عسکری تربیت گاہ بنایا جارہا تھا جس نے انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسی برائیوں کو فروغ دیا اور آج دونوں ملک کی عوام دہشت کے دہکتے انگاروں پر سیخ پا ہیں۔



ایجیسن کالچ لاھور


 


کراچی میں ایک مدرسہ جہاں سالانہ امتحان ہو رہا ہے


پاکستان میں دہرے میعار تعلیم کی یہ  دونوں تصاویر طبقاتی طبقاتی نظام کی  بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔ 


بے شک دہرا معیار تعلیم طبقاتی نظاموں کو فروغ دیتا ہے اور فرد واحد کی آمرانہ طرز حکومت قوم و ملک کے نظاموں کے لئے کتنی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے  اس کی مثال ضیاء کی حکومت سے دنیا لے سکتی ہے خصوصاً پاکستان اور افغانستان جیسے پسماندہ غریب ملک ، جن کے عوام زندگی کے حالیہ درپیش سماجی، معاشی اور سیاسی مسائل کی دلدل میں پھنسے نظر آتے ہیں جواُسی دور کے کیادھرا کی یاد کا شاخسانہ ہے۔


ملک و قوم کی سلامتی ، شہریوں کے تحفظ جان و مال ، اخلاقی اقدار تحمل ، بردباری اور ایک دوسرے کے حقوق کے احترام اور تسلیم  سے وابسطہ ہیں اور ملک کے اندر ایک مضبوط جمہوری نظام ہی عوام الناس کو اعلیٰ جمہوری اقدار کا سبق دے سکتا ہے نہ کہ آمرانہ  راویے انفرادیت پر مبنی فیصلے ، اس کے لئے ضروری ہے اس خطے کی عوام کو جمہوری نظام کی مضبوطی اور استحکام و تحفظ کے لئے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق جمہوری رویوں اور اقدار کی قلم و زبان سے تشہر کریں اور جمہوری نظام کی افادیت کو اپنے تدریسی کتب کا حصہ بنائے جو موجودہ اور آنے والی نسلوں کو زمانے کا سچ بتائے اور اس تاریخی سبق کو نسل در نسل منتقل کرے ، یہی مسلمہ اصول عوام کو معاشرتی برائیاں ، خرابیاں سدھارنے کا شعور دے سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو وقتی خطے کے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہو گی لیکن آنے والے کل کو جب یہ واقعات تاریخ بن کر سامنے آئے گے تو حماقتوں پر غصہ اور دکھ اور افسوس ہوگا۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ 



160