ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کے حالات زندگی اور کا طرز تحریر(حصہ دوم)

Posted on at


لفظوں کے انتخاب سے لے کر محاوروں کے استعمال تک وہ تمام باتیں جو کسی تحریر میں جاذبیت کا باعث ہو سکتی ہیں ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی نظم میں پائی جاتی ہیں جو ہمارے عہد کے کسی دوسرے محقق میں موجود نہیں۔

تحقیقی نثر کے ان نمونوں میں غلام مصطفیٰ خان کی نرم روی  اور اسلوب بیان کی چاشنی کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔ آپ پچیدہ سے پچیدہ تحریر کو نہایت عام فہم اور رواں پیرائے میں بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بیان کی چاشنی صرف ان کی تحقیقی نثر تک ہی محدود نہیں۔ موضوع مذہبی ہو، تاریخی اور لسانی ہو یا کسی شخصیت کا تذکرہ، ہر لحاظ سے ڈاکٹر صاحب قاری کو اپنے بیاں کی قدرت میں گرفتار کرنے کا فن جانتے ہیں، تذکرہ نگاری کے حوالے سے آپ کی کتاب "طوبی لھم" سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:"ہمارے ایک استاد محترم رشید احمد صدیقی صاحب موسمم گرما میں شیروانی پر ہیٹ لگایا کرتے تھے ایک طالب علم نے علامہ سے دریافت کیا کہ شیروانی پر ہیٹ لگانا ہیٹ لگانا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا شیروانی پر ہیٹ لگانے میں تو کوئی حرج نہیں لیکن دل پر نہ لگایا جائے ۔"

آپ کے مضامین میں ایک خاص بات یہ ہے کہ شخصیات نگاری کے ساتھ سبق آموز واقعات کے ذریعے غیر محسوس طریقے پر پڑھنے والے کی تربیت بھی ہوتی جاتی ہے، حالانکہ ان تمام واقعات میں مصنف کا اپنا حوالہ کہیں نہ کہیں ضرور موجود ہوتا ہے مگر قدم بہ قدم پر حفظ مراتب عاجزی و انکساری کی جھکیاں قاری کو دکھائی دیتی رہتی ہیں اور ان جھلکیوں میں ایک صوفی منشی بزرگ کی تصویر بنتی چلی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی تحریروں میں اس زمانے کے واقعات اور دیگر تہذیبی معاملات کو اس قدر خوبی سے بیان کرتے جاتے ہیں کہ پڑھنے والا اپنے آپ کو اس منظر میں ڈاکٹر صاحب کی معیت میں محسوس کرنے لگتا ہے وہ اپنے ممدوح کے بارے میں حتی الامکان زیادہ سے زیادہ معلومات اس انداز میں تحریر کرتے ہیں کہ کہ ذرا بھی بناوٹ کا احساس نہیں ہوتا۔

عمدہ نثری صلاحیتوں کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کو تاریخ گوئی میں بھی ملکہ حاصل ہے اور آپ نے جس قدر جامع انداز میں مختلف مواقع پر تاریخیں نکالی ہیں وہ صاحبان علم و فن کے لیے سرمایہ ہیں۔ مثال کے طور پر حبیب الرحمٰن شیروانی کے انتقال پر لکھتے ہیں۔

"عالم صدر نشین فیض و ہور

         بحرذ خار حبیب الرحمٰن"

اس شعر کے پہلے مصرعے میں عیسوی تاریخ 1950 ء اور دوسرے سے ھجری 1369ھ برآمد کی گئی ہے جو آپ کے قدرت کلام کی عمدہ مثال ہے۔ حضرت مولانا عبدالغفور مدنی صاحب  کے وصال کے موقع پر دس مصرعوں کا قطعہ تاریخ لکھا ، اس کے آخری دونوں مصرعوں میں بھی یہی اہتمام کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب کسی بھی زبان میں طبع آزمائی کریں الفاظ خود بخود آپ کی فکر کے مطابق راستہ بناتے دکھائی دیتے ہیں تحریر کا یہ لوچ ڈاکڑ صاحب کی عملی زندگی کی بھر پور تصویر ہے اور جن لوگوں نے آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ہے وہ بلاشبہ اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ ڈاکٹر آحب کی تحریروں میں وہی مشفق منکسر المزاج شخص موجود رہتا ہے جس کی راتیں عبادت گزاری میں اور دن خلق خدا کی ہدایت میں گزرتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس نالئہ نیم و شبی و سحر خیزی اور عبادت گزاری کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے شعبے میں اتنا کثیر اور اہم نوعیت کا کام بھی جاری ہے۔

آپ کی تصانیف کی تعداد سو سے زیادہ ہے جبکہ لاکھوں صفحات پر مشتمل علمی مقالات ان کے علاوہ ہیں۔آپ کی زندگی میں بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جنہیں آپ نے ایم اے سے لے کر پی ایچ ڈی تک کے مقالات اپنی نگرانی میں تحریر کروائے ہیں۔



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160