اس کی وجہ یہ ہے کہ ہارمون کی زیادہ مقدار کی وجہ سے جسم کے خلئے غذا کو تیز رفتاری کے ساتھ توانائی میں تبدیل کرتے ہیں ایسی توانائی جو جسم کی ضرورت سے زیادہ غیر ضروری اور شدید نقصان دہ ہوتی ہے جس طرح تیزی سے جلتی ہوئی لالٹین کی گرمی اور دھواں اس کی چمنی کو سیاہ کر دیتے ہیں اور بالاخرچمنی ٹوٹ جاتی ہے اسی طرح غیر ضروری توانائی انسان کی شمع حیات کو ایک دن اچانک ہی گل کر دیتی ہے ۔
ایسے میں مریض کی آنکھیں حلقوں سے ابل پڑتی ہیں اس طرح کہ مریض انہیں بند کرنے پر قادر نہیں رہتا ۔ اعصابی تناؤ اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ نفصیاتی اسپتال ہی اس کی منزل رہ جاتی ہے ، یہ کیفیت زیادہ دنوں بر قرار رہے تو اضافی توانائی کے سبب دل پر کام کا اتنا بوجھ بڑھ جاتا ہے کہ یہ سپمپنگ مشین ایک دن اچانک ہی بند ہو جاتی ہے۔
یہ سارے کارنامے انجام دینا میرے لئے مشکل نہیں ، میں جب چاہوں انسانوں کی زندگی اجیرن کر سکتا ہوں لیکن آپ بےحد خوش قسمت ہیں کہ میں کوئی کام اپنے بنانے والے کی مرضی کے خلاف نہیں کرتا میرا ہر عمل اوپر سے ملنے والے احکامات کے تابع ہے ۔
قدرت نے آپ کے پورے جسم میں چیک اینڈ بیلنس کا ایک ایسا پراسرار نظام قائم کر رکھا ہے جو زندگی کے ہر لمے میں آپ کو کم از کم لاکھوں ممکنہ خطرات سے بچاتا رہتا ہے لیکن انسان قدرت کے ان انمول احسانات کو کبھی محسوس تک نہیں کرتا ، شکر ادا کرنا تو بعد کی بات ہے اور اگر کوئی انسان اپنی ہر سانس کے ساتھ ان کا شکر ادا بھی کرتا ہے تو یقینن اس کی سانسیں بہت جلد ختم ہو جائیں گی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شکر ہی ادا نہ کیا جائے ۔
یہ احسان فراموشی کی بد ترین مثال ہوگی اپنی سی کوشش تو آدمی کو کرنا ہی چاہئے شکر کی بات تو بر سبیل تذکرہ نکل آئی میں آپ کو اپنی کہانی سنا رہا تھا آئیے اب میں آپ کو بتاؤں کہ میں اپنا سارا کام کس طرح سر انجام دیتا ہوں ۔ آپ کے جسم کے دوسرے غدود کی طرح میرے ننھے سے وجود میں بھی ایک چھوٹا سا کیمیکل پلانٹ موجود ہے ، یہ کیمیکل پلانٹ آپ کے دوران خون کے ذریعے اپنا مطلوبہ خام مال حاصل کر کے اسے ہارمونز میں تبدیل کرتا ہے ان میں سے دو ہارمونز کا دو تہائی حصہ آیوڈین پر مشتمل ہوتا ہے ان ہارمونز کی تیاری کے لئے مجھے روزانہ ایک گرام کے پانچ ہزارویں حصے کے برابر آیوڈین کی ضرورت پڑتی ہے ۔