ریسٹ ہاؤس کے آتش دان میں صنوبر کی لکڑی جل رہی تھی سارے کمرے میں صنوبر کی پر اسرار خوشبو پھیلی ہوئی تھی اس مہک کی وجہ سے ہمیں یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے پھولوں کے بسٹر پر لیتے ہوے ہوں
اگلی صبح ہم جھیل سیف ال ملوک کی طرف جا رہے تھے جو نارن سے کچھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لوگوں کا کہنا ہے کہ چاندنی راتوں میں اس جھیل پر پریاں اترتی ہیں . اس جھیل سے متعلق ایک کہانی قدیم زمانے سے مشہور چلی آ رہی ہے . یہ کہانی مصر کا شہزادہ سیف الملوک اور بوستان کی حسین و جمیل شہزادی بدی الجمال کے رومان کی داستان ہے.
ہم جھیل صاف الملوک کی طرف بڑھ رہے تھے پتا چلا کہ جھیل تک پہنچنے کا راستہ دشوار اور تنگ ہے لوگ اسے یا تو پیدل طے کرتے ہیں یا پھر گھوڑوں پر ہم نے اس سفر کو گھوڑوں کی سیر سے لطف اٹھانے کا پروگرام بنایا ہم نے گھوڑے کرے پر لئے اور جھیل کی طرف روانہ ہو گئے. ٹھوڈی دور جا کر ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گی چاندی ک شفاف تختے کی مانند ایک سفید چادر ہماری آنکھوں کے سامنے پھیلی ہوئی تھی یہ جھیل سی الملوک ہی تھی جس کے کنارے رنگ برنگے پھولوں سے ڈھکے ہوئے تھے.
پہاڑوں کی جانب سے رنگ برنگے پرندے یہاں سے وہاں اڑتے پھر رہے تھے اچانک ہمیں یوں لگا جیسے چاندنی راتوں میں اترنے والی پریاں ہمیں اپنا نظارہ یا اپنے حسن و جمال سے شاد کرنے کے لئے روز روشن میں جھیل پر اتر آی ہیں