سیاہ دھن کی محفوظ پناہ گاہ سوئس بینک

Posted on at


سیاہ دھن کی محفوظ  پناہ گاہ سوئس بینک


سوئزر لینڈ اپنے طلسماتی قدرتی حسن اور جنت نظیر، دلفریب نظاروں کی وجہ سے دنیا بھر  میں جانا جاتا ہے۔ اس کا دارلحکومت  برن ہے ، اس میں شک نہیں اس ملک کو قدرت نے دلفریب حسین نظارے عطا کئے ہیں لیکن ساتھ  ساتھ ان نظاروں کو دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے مذید پرکشش بنانے کے لئے ان علاقوں کی ترقی و آرائش پر کثیر سرمایہ کاری  کی گئی ، اس سرمائے کے حصول کا اصل ممبہ زیورچ اور جنیوا شہر کے بدعنوان سودی بینکرز ہیں جن کی بدنام زمانہ تاریخ عشروں کی بجائے صدیوں پر مبنی ہے۔ سوئس بینکوں کو دنیا بھر کے چوروں اور کرپٹ  لوگوں کے پیسے کو بہترین تحفظ دینے کے طور پر جانا جاتا ہے اس کے پیچھے 1934 کا بینکنگ ایکٹ کا قانون کار فرما ہے جس کی روح سے کھاتہ دار کے نام اور جمع شدہ پیسے کو خفیہ رکھنا ہے اس قانون کو نافذ کرنے کی وجہ 1930 کا یورپ کا اقتصادی بحران تھا جب یورپی ممالک نے اپنی لوٹی ہوئی رقوم کی تفصیل جاننے کے لئے  سوئس بینکوں سے رابطہ کیا  جس کے برعکس سوئزرلینڈ حکومت نے بیکنگ قانون کا نفاز کر کے اپنے بنیکوں میں دنیا کے کرپٹ عناصر کی جمع شدہ رقوم کو تحفظ دیا اور اقتصادی بحران سے دوچار ممالک کو بینکوں کے کھاتہ داروں کے نام اور رقوم کی تفصیل دینے سے انکار کر دیا۔



اگر تین صدیاں پیچھے چلے جائے تو فرانس کے بادشاہوں اور اشرافیہ نے اپنے پیسے کو تحفط دینے کی خاطر سوئس بینکوں کا سہارا لیا ،اس وقت یعنی 1713 میں سوئزرلینڈ حکومت نے سوئس بینکاری نظام کی ترقی کے لئے رازداری کا قانون بھی متعارف کروایا۔  سوئزر لینڈ کی اصل سودی بینکاری کا آغاز انقلاب فرانس ہے جب جلا وطن فرانسی شاہی خاندان نے اپنی رقوم کو زیورچ کے بینکوں میں جمع کرایا ۔ سوئس بینکوں کے کاروبار کے استحکام کو 1942 میں جرمن دولت نے دوام بخشا جب جرمن حکومت نے مشکل وقت سے نبٹنے کے لئے سونے اور زیورات سے لدی ریل گاڑی سوئزر لینڈ روانہ کر دی۔  لیکن اس دولت کو بعد میں فاتحین عالمی اتحاد اور سوئس بینکاروں نے آپس میں بانٹ  دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام شروع کیا ہوا تھا تو بیشتر مالدار یہودیوں نے اپنی دولت سوئس بینکوں میں جمع کرائی یہودیوں کے ان کھاتوں کو ہالوکاسٹ کے بعد کرپٹ سوئس بینکرز نے گم نام قرار دے کر جلا دیا۔



سوئس بینکوں کی تاریخ بڑی سیاہ ہے سوئس بینک اسی پرانی روش پر ابھی تک  کارفرما ہیں، یہ سلسلہ جاری و ساری ہے دنیا بھر کے بدعنوان، چور ، ڈاکو، بدعنوان سیاسی قائدین، بدعنوان رشوت خور افسر شاہی اور کمیشن خور فوجی جرنیل وآمروں کا کالا دھن کا پیسہ سوئس بینکوں میں محفوظ ہے، اس پیسے سے حاصل شدہ منافع سوئزر لینڈ حکومت اپنے عوام کو بلند معیار زندگی دے رہی ہے اور قدرت کے نظاروں کی تراش خراش کر کے اس کے حسن میں مذید نکھار لا رہی ہیں جو سیاحت کی صنعت کو فروغ دے رہی ہے اس ملک کے حکمران باقی دنیا کے ماملات سے لاتعلق ہیں حتیٰ کہ سوئزلینڈ کے سیاست دان اپنے ملک کو یورپی یونین میں شامل کرنے سے  کترا رہے ہیں جو ملک کے سرمائے و قومی خزانے کو زک پہنچاہا سکتی ہے



سوئزرلینڈ کے بینکوں میں اس وقت ایک باوثوق ذرایع کے مطابق پاکستانی کرپٹ سیاستدانوں افسروں اور ریٹائڈ فوجی جرنیلوں کی ایک خطیر رقم جمع ہے جس کی مالیت 200 ارب ڈالر بنتی ہے۔ جب کہ ملک پر کل قرضہ 67 ارب ڈالر ہے دنیا کی مشہورشخصیات میں پاکستان کے آصف علی زرداری ، فلپائن کے مارکوس، چلی کا  آئندلے، ایران کا رضاشاہ، افریقن ، انڈین سرمایہ کار و کلیدی سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کی 1.4 کھرب ڈالر رقوم سوئس بنیکوں کے کاوروبار کو استحکام دے رہی ہیں۔  دنیا میں جن سیاست دانوں اور کرپٹ جرائم پیشہ مافیہ کی رقوم سوئس بینکوں میں جمع ہے ان ممالک کے لوگ غربت و مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں تعلیم و صحت کی سہولیات ناپید ہیں اِس طرف بے رحم سیاست دان اور اُس طرف سوئس بینک انسانیت کے درد سےناآشناء ہیں سوئس لوگوں کی فی کس آمدنی دنیا  میں سب سے زیادہ ہے اور اس طرف دنیا کے غریب ترین لوگ آباد ہیں۔



پاکستان میں اس وقت سوئس بینکوں سے پاکستانی عوام کی لوٹی ہوئی  رقوم کی واپسی کا ذکر ہو رہا ہے جو گیت الانپنے کے سوا کچھ نہیں کیونکہ جہاں یہودی موجودہ وقت میں طاقت و بالادستی رکھنے کے باوجود اپنی رقم سوئس بینکوں سے نہیں لے سکے تو پاکستان جیسے پسماندہ ملک کے حکمرانوں کی آواز آہ و فریاد زاری دنیا میں کدھر سنائی دے گی ، دنیا میں اس وقت کہیں بھی غریب و مظلوم کی شنوائی نہیں،  اس عفریت سے نکلنے کا واحد راستہ ملک میں قانون کی بالادستی اور بدعنوان لوگوں کے لئے عبرت ناک سزاؤں کے علاوہ کچھ نہیں ان طریقوں کو اپنا کا دنیا کے بیشتر ممالک نے اس ناسور سے جان چھڑائی ہے ان ممالک میںچین، جہاں کرپشن کی سزا سزائے موت ہے ،  ایران ، شمالی کوریا،  جہاں پر کرپشن کی سزا سزائے موت ہے۔


********************************************************************** 



160