حضرت عثمان خیر آبادیؒ
حضرت عثمان خیر آبادیؒ نہایت متقی، پرہیزگار اور صاحب کمال بزرگ تھے۔ وہ بہت عبادت گزار تھےاور اپنی عبادت و ریاضت کو لوگوں سے پوشیدہ رکھتے تھے، یہی وجہ تھی کہ عوام الناس ان کے روحانی مقام سے واقف نہ تھے۔ حضرت شیخؒ سبزیوں کا سالن پکا کر بیچتے اور گزر اوقات کرتے تھے۔
ایک دن ایک شخص حضرت شیخ عثمانؒ کے پاس کھوٹا سکہ لایا اور سالن مانگا۔ شیخ نے ایک نظر کھوٹے سکے کو دیکھا اور خریدار کو سالن دے دیا۔ دو چار دنوں بعد وہی شخص چند اور کھوٹے سکے لے آیا اور سالن لے کر چلا گیا۔ کچھ دن گزرنے کے بعد اس نے پھر ایسا ہی کیا۔ حضرت شیخ نے پھر ایک بار انکار نہ کیا اور نہ ہی اسے یہ جتایا کہ وہ اس شخص کی دھوکہ بازی جان چکے ہیں۔ پھر یہ بات پورے شہر میں مشہور ہو گئی کہ حضرت شیخ عثمانؒ خیر آبادی کو کھرے اور کھوٹے سکوں کی تمیز نہیں رہی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس کے پاس کھوٹا سکہ ہوتا وہ آپؒ کے پاس آتا، کھوٹا سکہ دیتا اور سالن لے جاتا۔ یہاں تک کہ حضرت شیخؒ کے پاس کھوٹے سکوں کا ڈھیر لگ گیا۔
جب حضرت شیخؒ کا آخری وقت قریب آیا تو لوگوں نے حضرت شیخؒ کو ﷲ پاک کے سامنے گڑگڑاتے سنا کہ ’’ اے میرے معبود! اے میرے مالک! تو جانتا ہے کہ میں نے تیرے بندوں کے لائے ہوئے کھوٹے سکے اس لیے قبول کیے کہ وہ میرے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔ یالعرب عظیم! تو بھی میری عبادتوں کو رد نہ کرنا تو بھی انھیں قبول کر لے خواہ وہ کھوٹی ہی کیوں نہ ہوں اور اس روز قیامت مجھے شرمندگی سے بچا لینا۔‘‘