میرا گلگت

Posted on at


میرا گلگت

میرا گلگت جی ہاں میرا گلگت تیرا گلگت تین پہاڑی سلسلوں قراقرم،ہندوکش،اور ہمالیہ کے سنگم پر واقع میرا گلگت سیاحوں کی اولین پسند اور زمین پر جنت کا ٹکڑا۔میرا گلگت اپنے اندر صدیوں کی ثقافت لئےہوئےمختلف قبیلے ،نسل ذات اور طرح طرح کی بولیاں سمیٹے ہوئےمیرا گلگت ،میرا مسکن،میرا مان۔میرا گلگت جو میری کتاب کا عنوان ہے کے بارے ہی اس بلاگ میں باتیں ہونگی ۔میرا گلگت سے میری مراد گلگت بلتستان ہی ہے لیکن  یہاں پر ہم صرف ضلع گلگت سے ہی متعلق مواد  پیش کرینگے۔ آپ لوگوں سے میری گزارش ہوگی کہ میری کتاب  جو تکمیل کے آخری مراحل میں اور ضروری مواد میرے پاس ہے  جس کو آپ لوگوں کی آرا کے ستھ آخر میں کتاب کی صورت میں  پبلک کیا جائیگا  آپ کے پاس ضلع گلگت کے حوالے سے جو بھی معلومات  ہوں ضرور شیئر کرینگے تاکہ  اس بلاگ کو مزید خوبصورت بنا یا  جا سکے ۔آپ چاہئیں تواپنا مواد یا خیالات   کمنٹس کے ذریعے یا مجھے  ای میل کرکے پہنچا سکتے ہیں ۔ امید ہے کہ  آپ  گلگت  سے متعلق معلومات شیئر کر کے اپنے علاقے کو دنیا میں متعارف کرانے میں اپنا رول ضرور ادا کرینگے۔

آپ کی آرا کا منتظر

ہدایت اللہ اختر

جاگیر بسین گلگت

Email:baseen@gmail.com

 

 

نام کی وجہ تسمیہ

ایک مقولہ بڑا مشہور ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے گلاب کو جس نام سے بھی پکاروگلاب ہی ہے۔لیکن نام کے بغیر بھی بات نہیں بنتی  کیونکہ نام ہی کے ذریعے ایک پہچان بنتی ہے  اس لئے ضروری ہے کہ  گلگت کے نام کی وجہ تسمیہ جانی جائے تاکہ  گلگت کو سمجھنے میں آسانی  رہے۔۔وجہ تسمیہ کا ذکر کرتے ہوئے مولوی حشمت اللہ اپنی کتاب  تاریخ جموں و کشمیر میں گلگت  نام کی وجہ تسمیہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں ۔۔۔گلگت کا قدیمی نام سرجن یا سارگن تھا  جو بعد میں  گلیت بن گیا ۔وہ خود بھی ان دو ناموں  کی وجہ تسمیہ  کی عدم  دستیابی کا ذکر کرتے ہیں  ۔وہ لکھتے ہیں کہ  بعض مورخین  گلیت کو  سنسکرت  کے لفظ گھالاتا سے جوڑتے ہیں  لیکن تائید میں  کوئی دلائل  اسے ہاتھ نہیں لگی ۔۔مولوی حشمت اللہ کا کہنا یہ بھی ہے کہ  ڈوگرہ حکومت  میں گلیت  لفظ  ان کی زبان پر  چڑھ نہ سکا  اور وہ گلیت  سے گلگت بن گیا ۔۔گلیت نام کی وجہ تسمیہ  گلگت کے اولین  اردو مسنف  ماسٹر  عجب خان  نے اپنی  کتاب گلگت کا جغرافیہ  میں کچھ اس طرح  سے بیان کیا ہے ۔۔چونکہ یہ علاقہ چاروں طرف سے  پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے اس لئے  اس کو گری گرت  کہا جاتا تھا  اور یہ لفظ  بھی سنسکرت کا ہی ہے  جس کے معانی  وہی ہیں  جو اوپر بیان کیا گیا ہے   یعنی پہاڑوں سے گھرا ہوا۔ ماسٹر عجب خان  اسے گلگوت  سے بھی تشبیہ دیتے ہیں  جس کے معانی  قبرستان  کے ہیں وہ ان ہی دو ناموں  کو لفظ گلگت میں تبدیل  ہونے کا  گماں کرتے ہیں ۔جناب پروفیسر عثمان علی صاحب نے بھی ماسٹر عجب خان سے اکتفا کیا ہے اور  اپنی مرتب کردہ کتاب  جو تیسری جماعت میں پڑھائی جاتی ہے  من و عن درج کیا ہے  جو ماسٹر عجب خان نے  اپنی تصنیف گلگت کا جغرافیہ  میں لکھا ہے۔اوپر درج بالا تمام وجوہات  کو ہاتون سے دریافت ہونے والے سنگی کتبے  اور اس میں درج  لفظ گلیگتہ نے  یکسر  مسترد کردیا ہے ۔ یاد رہے یہ سنگی کتبہ اٹھویں صدی قبل  کا بتایا جاتا ہے ۔ اس کتبے میں درج تحریر کے مطالعہ اور تحقیق نے ثابت کر دیا کہ  گلگت کا نام قدیم سے ہے اور اسی گلیگتہ  کے لفظ نے  گلیت کا روپ دھارا  جو بعد میں  یہاں بسنے والے کشمیریوں اور ڈوگروں کی زبان سے صحیح ادا نہ ہو سکا یا یوں کہئیں کہ انگریز اسے گلگٹ  پکارتے تھے  جو بگڑ کر گلگت  میں تبدیل ہوا۔ مقامی لوگ اب بھی گلگت کو گلیت ہی پکارتے ہیں لیکن اردو میں اسے گلگت  لکھا اور پکارا جاتا ہے

    

 محل وقوع۔۔

کوئی چیز اپنی طبعی حالت میں جہاں موجود ہوتی ہے وہ جاہ اس کی محل وقوع کہلاتی ہے۔اور جغرافیائی لحاظ سے  کسی خطے کا محل وقوع  اس کے طول البلد اور عرض البلد کی مدد سے بتایا جاتا ہے  طول البلد اور عرض البلد دو فرضی خطوط ہیں  جو زمین کے گرد قطبین  کے درمیان کھینچے ہوئے ہیں اور یہ خطوط خط استر کے متوازی  شرقاً غرباً اور عمو داً واقع ہیں  عرض البلد کو انگریزی میں لیٹیٹیوڈ کہتے ہیں اور طول البلد کولانگٹیٹیوڈ کہا جاتا ہے  ان خطوط کی بنیاد پر کسی بھی  معیاری نقشے پر  کسی مقام کا پتہ لگایا جا سکتا  اسی حساب سے گلگت کا محل وقوع بنتا  ہےN 74 17"21.15"E"18.71"55 35

حدودربعہ

محل وقوع کے بعد لازمی بات ہے کہ اس کے اطراف پہ بھی تھوڑی نظر ڈالی جائے  تاکہ  معلوم ہو سکے کہ اس کی ہمسائیگی میں کون کون سے علاقے  موجود ہیں۔گلگت بلتستان کے نقشے سے دیکھیں تو  بین الااقوامی  ہمسائے چین،افغانستان،ہندوستان اور قومی ہمسایہ  پاکستان اس کے اطراف میں نظر آتے ہیں ۔چونکہ بات ہو رہی ہے ضلع گلگت کی، اس لئے  جب   گلگت کے نقشے پر نظریں جمتی ہیں تو  اس کے مغربی جانب ضلع غذر، مشرقی حصے میں ضلع دیامر و استور، شمال میں ضلع ہنزہ و نگر جبکہ جنوب مشرق کی طرف ضلع بلتستان کی موجودگی دکھائی دیتی ہے۔گویا ان سب علاقوں کے ماتھے کا جھومر کا نام ضلع گلگت ہے    

 گلگت تاریخ کے آئنے میں

گلگت بلتستان کا مرکز گلگت کی تاریخ تو بہت پُرانی بتائی جاتی ہے پر کوئی مصدقہ تحریر آج تک  منظر عام پر نہیں آئی۔گلگت جو کسی وقت دردستان تھا اس کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے  تو ہمیں قصے اور مفروضوں کے سوا کچھ نہیں ملتا بعض معمملات میں تو اتنا مبالغہ اور مغالطے ہیں کہ  ذہن گھوم کے رہ جاتا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے  اور نئے لکھنے والے بھی تحقیق اور جستجو سے عاری ہیں  ابھی تک قصے کہانیوں پہ اکتفا کئے ہوئے ہیں ۔ قدیم تاریخ کے حوالے سے کسی حد تک یہ مغالطے  قابل قبول ہو سکتے ہیں لیکن جدید تاریخ میں بھی یہ قباحت برقرارہے تو اسے المیہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ ۔ تاریخی حوالہ جات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ چینی سیاح فاہیان جو تیسری صدی عیسوی میں  ہندوستان کے سفر پر نکلا تھا اس کے سفر نامے میں اس علاقے میں پلولا نامی سلطنت کا ذکر ہے۔ تیسری صدی عیسوی سے لیکر ساتویں صدی عیسوی تک  گپتا سلطنت اور پالا سلطنت  کے حوالےسے اور فاہیان اور ہانگ چینی سیاحوں  اور منگول کے آنے سے پہلے کی تاریخی شوہد یہ بتاتے ہیں کہ چین سے لیکر سندھ تک شاہراہ ریشم کے ساتھ آبادیوں میں بدھ مت  کی خانقاہیں تعمیر تھیں جن کے نشانات آج بھی ان علاقوں  میں پائے جاتے ہیں ۔بلتستان کی قدیم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پانچویں صدی عیسوی میں پلولا حکمران کا تذکرہ ملتا ہے  جس کے تحت  پلولا نامی سلطنت چترال ،گلگت اور بلتستان  پر پھیلی ہوئی تھی ۔۔قیم زمانے سے گلگتیوں کا  بلتستان کو پلویو کے نام سے  پکارنے کی وجہ  بھی شاید یہی پلولا حکمرانی ہی ہو۔۔یا ممکن ہے کہ یہ پلولا پالا سلطنت کا کوئی حکمران گزرا ہو ۔ دردستان  جو شین یشکن اور کمین   ڈوم کا مجموعہ تھا جن کی الگ الگ وحدتیں ہوا کرتی تھیں اور یہ قومیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی۔اس مجموعے کو درد اقوم کا نام  دیا گیا ۔جس کا ذکرمشہور یونانی  مورخ   ہیروڈوٹس نے بھی کیا ہے۔۔۔اس کے مطابق قدیم زمانے میں درد اقو ام   گلگت سے ہجرت کر کے لداخ میں جاکر آباد ہوئے اور وہاں اپنی حکمرانی قائم کی۔لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان درد اقوام میں ایک بھی ایسا مورخ  نہیں نکلا جو اپنے ان کارناموں کو ضبط تحریر میں لا سکے۔گلگت کی تاریخ  زمانہ قدیم سے اٹھارویں عیسوی صدی تک مبہم اور  اس پر تاریکی چھائی ہوئی ہے  ممکن ہے کہ آئندہ آنے والے تاریخ دان اس سے پردہ پردہ اٹھا سکیں ۔۔گلگت کی تاریخ کا سلسلہ اگر جُڑتا ہے تو وہ پانچویں صدی عیسوی سے جس کا ذکر پلولا کے حوالے سے اوپر ہو چکا ہے ۔تاریخی شواہد یہ بتاتے ہیں کہ کیسر بلتستان (کیسر یونانی لفظ ہے جس کے معانی حکمران کے ہیں ) جو بدھ مت کا پیروکار تھا  جس نے یارقند بدخشاں اور پھر چترال کے راستے گلگت کو اپنے ْقبضے میں لیا تھا ۔جب وہ  گلگت سے جانے لگا تو  اس نے  گلگت میں اپنا ایک  گورنر جس کا نام بگورتھم بتایا جاتا ہے  مقرر کیا۔اور تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ گلگت کا اولین راجہ یہی بگورتھم تھے،اور گلگت کی بادشاہی یا تاریخ  اسی اولین راجہ کے دور سے شروع ہوتی ہے یہ عرصہ آٹھ سو عیسوی کا ہے  تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ابود گامو  بدھ مت کے حکمران  تھے  جسکے تین بیٹے تھے،بگورتھم، ٹھاکن اور خستہ جن کا تعلق شین قبیلے سے تھا ۔راجہ بگورتھم کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے  شری بدت کو حکمرانی ملی  شری بدت   گلگت کا آخری شین حکمران تھا اس کی ایک ہی بیٹی تھی  جس کی شادی آزر نامی شخص سے ہوئی  اور یوں بیٹی کا سلسلہ نسب چل پڑا اور تراخان نامی راجے کی حکمرانی  سے نام کی نسبت سے تراخانی حکمرانی کہلائی جسے تراخان راجے کہا جاتا ہے ۔ تراخان راجے نے مذہب مغلی (اجسے آج کل اسماعلیہ مذہب کہا جاتا ہے)اختیار کیا۔ یہ عرصہ تیرہ سو پینتالیس عیسوی  کا ہے۔

گلگت کی تاریخ میں شری بدت کی حکومت کا خاتمہ اور اس کی بیٹی نور بخت کا آزر نامی شخص سے خفیہ شادی اور نور بخت کا نومولود بیٹے کا دریا میں بغرض حفاظت بہا دینا ،بلداس نامی گائوں میں کسی زمیندار کے ہاں بچے کا پلنا اور اسے محل میں لانے تک کی جو کہانیاں اور قصے بیان  کئے جاتے ہیں  وہ سب افسانوی  اور مفروضے ہی لگتے ہیں   جیسا  پہلے ذکر ہوا کہ تاریخ کی کڑیاں ملانے کے لئے  ان مفروضوں کا سہارا لئے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں بنتا۔بحر الحال یہ بات طے ہے کہ شری بدت  کی بیٹی نور بخت کا آزر نامی شخص  جو ایران کا شہزادہ یا سکردو راجگان مقپون حکمران کا فرزند بتایا جاتا ہے سے ہوئی۔شری بدت کے بعد اس شہزادے کی حکمرانی کتنے عرصے رہی  یا وہ دردستان سے کب واپس ہوا  اس بارے تاریخ خاموش ہے۔نوربخت بڑھاپے کو پہنچتی ہے تو  حکمرانی وراثت کی فکر لگ جاتی ہے اور پھر ڈرامائی انداز میں  ہمیں تاریخ میں راجہ کرک کی انٹری دکھائی دیتی ہے  اور یہ وہی  ہوتا ہے جسے نوربخت نے اپنے والد کے خوف سے پیدئش کے فوراً بعد دریا میں بہا دیا تھا۔جیسا اوپر ذکر ہوا کہ اس خاندان کے ایک حکمران  جس کا نام تراخان تھا مغلی مذہب اختیار کیا۔تراخان راجے کا مغلی مذہب اختیار  کرنے کی ایک ہی وجہ ہو سکتی ہیں  اول یہ کہ تاج مغل جس نے  بدخشاں سے حملہ کیا تھا  اس نے ان تمام علاقوں کو اپنی عملداری میں لیا تھا۔اور تراخان نے اپنی حکمرانی قائم رکھنے کے لئے  تاج مغل کا مذہب  اختیار کیا ہو۔اسے آہ تراخان کی ہوشیاری کہیں یا ہوس اقتدار ۔تراخان کی اولاد میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا جس کا نام سو ملک  تھا جو بعد میں  گلگت کا راجہ کہلایا۔ایک بیٹی راجہ یاسین فرامرز اور ایک بیٹی راجہ سکردو کو بیاہی گئی۔راجہ سو ملک سے آگے جاکر ہمیں راجہ مرزہ خان کے احوال مل جاتے ہیں  جس نے شیعہ مذہب اختیار کیا تھا اور اس کا عرصہ ۱۵۰۰ اور ۱۶۰۰ عیسوی کا بنتا ہے ۔مرزہ خان کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی صرف ایک بیٹی جوار خاتون تھی جو علی شیر خان انچن کے بیٹے آحمد خان سکردو  سے بیاہی گئی تھی۔جب مرزہ خان کا قتل ہوا تو گلگت کے عمائدین  نے جوار خاتون کو سکردو سے لاکر گلگت کے تخت پر بٹھا دیا  اس وقت وہ بیوہ کی زندگی گزار رہی تھے  جو بعد میں راجہ فردوس نگر کے عقد میں گئی  اس سے ایک ہی بیٹا ہوا جس کا نام جئی خان تھا۔اور تاریخ گواہ ہے کہ اس زیرک خاتون نے اپنے بیٹے کی ولایت میں گلگت کی حکمرانی کی اور گلگت کی دو مشہور نہریں بھی اسی ہی کے زمانے کی بنی ہوئی ہیں ۔جب جئی خان کا بیٹا سلیمان خان جس کو تاریخ گوری تھم کے نام سے جانتی ہے راجہ سلیمان شاہ یاسین خوشوقت  کے ہاتھوں ۱۸۰۵ میں قتل ہوا  اور راجہ سلیمان شاہ کے ہی ہاتھوں سے ۱۸۰۵ سے ۱۸۳۳ تک یکے بعد دیگرے تراخان راجے قتل ہوئے تو ایک بار پھر  یہ خاندان  نرینہ اولاد سے محروم ہوئے۔ راجہ سلیمان شاہ یاسین نے گلگت میں پانچ سال تک حکمرانی کی۔۔۔

راجہ سلیمان شاہ کے دور حکومت سے لیکر ۱۸۵۹ تک گلگت  کی راجدھانی  کی بھاگ دوڑ کے دور کو اگر رسہ کشی سے سے تشبیہ دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں گلگت کے ان حکمرانوں کی نرینہ اولاد  تو نہیں رہی تھی البتہ اس خاندان کی ایک لڑکی صاحب نما تھی جس کی شادی راجہ کریم خان پسر راجہ طاہر شاہ نگر سے ہوئی  چناچہ اسی حوالے سے گلگت کی راجدھانی میں راجگان نگر ہی نمایاں رہے اسی صاحب نما خاتون کے بطن سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی محمد خان اور حبہ خاتون کا جنم ہوا۔حبہ خاتون کی شادی راجہ جعفر زاہد خان نگر سے ہوئی ۔حالات اور واقعات کے مطابق  راجہ سلیمان شاہ  یاسین جو گلگت پر قابض تھا اس سے راجہ آزاد خان  نے حکمرانی چھین لی  اور اس سے راجہ طاہر شاہ نگر نے  اور جب راجہ طاہر شاہ فوت ہوا تو راجہ شاہ سکندر جو راجہ طاہر شاہ کا بیٹا تھا گلگت کا حکمران ہوا۔اس دوران راجہ گوہر آمان یاسین جس نے راجہ عظمت شاہ  اور عیسیٰ بہادر سے حکمرانی چھین لی اور  گلگت کی طرف متوجہ ہوا۔۔ اسی کے حملے کے خوف سے راجہ محمد خان فرزند صاحب نما بگروٹ سے اسکردو کے راستے کشمیر فرار ہوا۔ جب راجہ گوہر آمان نے گلگت پر قبضہ جمایا تو اس وقت  راجہ شاہ سکندر گلگت کے حکمران تھے  جسے راجہ گوہر آمان نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔جب راجہ شاہ سکندر کی موت کی خبر اور اقتدار چھن جانے کی خبر شاہ سکندر کے بھائی راجہ کریم خان  جو اس وقت گور میں تھے ملی تو وہ کشمیر چلا گیا اور کشمیر کے سکھ حکمرانوں سے بوساطت لاہور مدد کا طلب گار ہوا۔ راجہ کریم خان سکھ جرنیل نتھے شاہ کی سربراہی میں ۱۸۴۲ میں گلگت کا حکمران بنا یوں پہلی بار  گلگت  سرکار کشمیر کی عملداری میں آیا۔

یاد رہے کہ راجہ گوہر آمان کا گلگت راجدھانی میں عمل دخل کے ساتھ ہیگلگت کے راجے حکمران بس خطابی رہ گئے تھے۔اب اصل معرکہ راجہ گوہر آمان اور کشمیر کے حکمرانوں کے مابین تھا۔اس سلسلے میں گلگت کی حکمرانی کے لئے کئی معرکے راجہ گوہر آمان اور ڈوگروں کے درمیان ہوئے  جس میں ہر بار ڈوگروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔پہلا معرکہ ۱۸۵۲ میں  جس میں راجہ گوہر آمان نے گلگت سے ڈوگرہ اقتدار چھین کر اپنے قبضے میں کر کیا۔دوسرا واقہ جسے چکر کوٹ معرکہ کہا جاتا ہے  اس میں بھی راجہ گوہر آمان کا پلہ بھاری رہا۔تیسری لڑائی نیلیدار معرکہ سے مشہور ہے ڈوگروں کو عبرتناک شکست سے دو چار ہونا پڑا  اور چھوتھی لڑائی جو ۱۸۵۷ میں  ہوئی  جو بھوپ سنگھ پڑی معرکہ کے نام سے مشہور ہوئی کیونکہ اس کی قیادت ڈوگرہ جرنیل بھوپ سنگھ کر رہے تھے جسے شکست ہوئی اور اس کی رحم کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے راجہ گوہر آمان نے اپنی تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا کام تمام کر دیا تھا۔اس لئے اس پڑی کا نام آج بھی بھوپ سنگھ پڑی ہی ہے۔۱۸۳۵ سے لیکر ۱۸۵۹ تک راجہ گوہر آمان مختلف ادوار میں مختلف علاقوں پر حکمران رہا وہ ایک جری اور بہادر حکمران تھے اور رموز حکمرانی سے واقف بھی اس کے علاوہ ایک اچھے منتظم کے طور پر بھی نظر آتے ہیں  اس کے ہاں مصلحت پسندی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے یہی وجہ ہے کہ کہ انہیں ایک ظالم حکمران تصور کیا جاتا ہے  اگر تاریخ کو کھنگالا جائے تو دنیا میں بہت کم ایسے لوگوں کے نام نظر آتے ہیں ۔اسے اپنے علاقے سے انےہائی حد تک محبت تھی اگر اس کو اس دھرتی کا پہلا قوم پرست کہا جائے مناسب ہوگا۔ جب تک وہ گلگت کا حکمران رہا ڈوگرہ اسے شکست نہ دے سکے  اور آخری دنوں میں جب اس کی صحت جواب دے گئی تو ڈوگروں کو موقع ملا  اور انہوں نے ۱۸۵۹ میں  اپنی تسلط کو دوام دینے کے لئے گلگت میں وزیر وزارت قائم کی جس کا پہلا نمائندہ  تھا۔ راجہ کریم خان  جس نیت سے نتھے شاہ کو اس خطے میں لائے تھے  وہ تو پورے نہیں ہوئے  راجہ کریم خان تو بظاہر حکمران تھے پر اختیار کہیں اور تھا۔جیسا پہلے مزکور ہوا ہے کہ بس  خطابی ۔کشمیر کی سو سالہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے  تو معلوم یہی ہوتا ہے کہ مہارجہ نے کبھی ان علاقوں میں براہ راست حکومت نہیں کی بلکہ  اپنی حکومت کو یہاں موجود راجوں اور میروں کی مدد سے قائم رکھا۔اسے آپ مہارجہ کی کمال ہنرمندی کا نام دے سکتے ہیں ۔۔اس بات سے کسی کو انکار  ہو ہی نہیں سکتا کہ  گلگت اور اس سے ملحقہ جات ازمنہ قدیم سے ہی بڑی اہمیت کے حامل رہے ہیں  قدیم شاہراہ ریشم کی تجارت اور منگول نسل کے ہُن قبائل کے ان علاقوں پر حملے اور چین کا اس خطے میں عمل دخل کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو برطانوی حکومت کا ۱۸۷۷ میں یہاں انجنسی کا قیام  کا مقصد سمجھ آجاتا ہے اور پھر ۱۹۳۵ کے بلشوک انقلاب  کے بعد ان علاقوں کو پٹہ پر حاصل کرنا کے پیچھے کیا چیزیں کار فرما ہو سکتی ہیں  اسے یہاں بیان  کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی اس لئے کہ  دفاعی اور معاشی لحاظ  کے سات ساتھ سیاسی پہلو بھی اس میں شامل ہیں ۔کشمیر کی سو سالہ تاریخ میں ہمیں اس خطے میں انگریز اور مہارجہ ساتھ ساتھ دکھائی دیتے ہیں ۔ایک طرف  پولیٹکل علاقہ جات اور دوسری طرف کشمیر کی وزارت شمال مغربی صوبہ گلگت لداخ اور کارگل۔مہارجہ کشمیر اور انگریز حکمرانوں کی اس مشترکہ حکومت میں ہمیں اس خطے میں کوئی  علحیدگی کی تحریک  یا مہارجہ کے خلاف کوئی بغاوت  نظر نہیں آتی ۔جب انگریزوں کو برصغیر چھوڑنا پڑا تو گلگت کو پٹہ پر لینے والا  معاہدہ جون ا۹۴۷ میں ختم کرنا پڑا  جس کے تحت یکم اگست ۱۹۴۷ کو مہارجہ کشمیر کے نمائندہ گھنسارا سنگھ کی تقرری عمل میں آئی یوں اگست سے یہ خطہ دوبارہ مہارجہ کشمیر کی عملداری میں چلا گیا ۔جب پاکستان وجود میں آیا تو پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کی تقسیم وجہ تنازع بن گئی۔ اس وجہ تنازع کے باعث کشمیر کے خطوں میں بے چینی اور اضطراب پیدا ہوا۔اس بات سے آپ مجھ سے اتفاق ضرور کرینگے کہ گلگت کو ڈوگروں سے خالی کرانے کی کوئی منظم تحریک یا منصوبہ بندی  سیاسی یا عوام کی طرف سے نہیں تھی۔جب گھنسارا سنگھ نے بطور گورنر گلگت اپنی ذمہ داریاں سنمبھالی تو  انگریزوں کی قائم کردہ گلگت لیوی جس کو گلگت سکاوٹس کہا جاتا تھا  جس میں صرف یہاں کے میر اور راجوں کی اولاد بھرتی تھے یا ان کی سفارش پر ہی کسی کو اس میں بھرتی کیا جاتا تھا  اور جن کی مراعات  اور سہولتیں ریاستی فوج سے کم تھیں  اور مرتبہ بھی اتنا نہیں تھا جتنا ریاستی  فوج کا تھا۔  اس لئے ان کو اس بارے خدشات تھے  وہ یہ سمجھتے تھے  کہ ریاست فوج کی موجودگی  ان کی اہمیت کو کم کر دیگی  یا یہ کہ کہیں  ان کو فارغ نہ کر دیا جائے۔ ان خدشات کے پیش نظر ہی گلگت سکاوٹس  کے جے سی اوز نے میجر برون  کے ہمراہ گھنسارا سنگھ سے ملاقات کر کے اپنے مطالبات پیش کر دئے۔گورنر نے انہیں تسلی دی اور جنرل سکاٹ کے ذریعے منظوری کے لئے بھیجوا دیا۔ لیکن یہ مطالبات منظور نہیں ہوئے ۔ اس سے پہلے جے سی اوز کے ساتھ ملاقات میں  گھنسارا سنگھ  نے دو ٹوک الفاظ میں ان جے سی اوز کو یہ بتایا تھا کہ ان کا مرتبہ کبھی بھی سٹیٹ فورس کے برابر نہیں ہو سکتا جس پر تمام جے سی اوز  بد دل ہوئے  اور گلگت سکاوٹس کے جوانوں میں بے چینی پھیل گئی  اور یہی بے چینی اور مراعات  کے مطالبے  اور دیگر بہت سارے عوامل  انقلاب گلگت کا باعث بنے اور گلگت سے ڈوگرہ راج کا خاتمہ ہوا  اور ایک عبوری سیٹ اپ تشکیل پایا جسے عبوری حکومت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

عبوری سیٹ اپ

گلگت کی تاریخ میں ڈوگرہ حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی  ایک عبوری سیٹ اپ کا تذکرہ بھی موجود ہے  جسے عبوری حکومت یا عبوری کونسل کے نام سے لکھا اور پکارا جاتا ہے۔گلگت انقلاب  کے بعد گلگت سکاوٹس کا ایک بڑا اجتماع  پریڈ گرونڈ میں ہوا جس میں میجر برون بھی شریک تھے لوگ خوشیاں منا رہے تھے اور گلگت سکاوٹس ریاستی فوج اور انگرز آفیسر کی میٹنگ  ہو رہی تھی اس میٹنگ میں میجر برون اور  کرنل حسن خان اس وقت کے کیپٹن کے درمیان کچھ تلخی بھی ہوتی ہے  لیکن معاملہ پھر سدھر جاتا ہے اور آپس کے مشورے کے بعد ایک عبوری کونسل یا سیٹ اپ پر اتفاق ہوجاتا ہے ۔اسی میٹنگ کی روشنی میں ہی دو نومبر ۱۹۴۷ کو پاکستان کا پرچم لہرایا جاتا ہے۔اس عبوری سیٹ اپ کے بارے متضاد  بیانات آتے رہے اور  بہت سے ذہنوں میں یہ بات بھی آگئی کہ شائد یہ ایک آزاد  ریاست یا ملک بنانے کی طرف کوئی قدم تھا۔۔ایسی بات ہوتی تو عبوری کا لفظ کبھی استعمال نہ ہوتا۔یہ میرا خیال ہے۔ اس بارے چھان بین کی جائے تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس عبوری سیٹ اپ کے بارے خود  انقلاب میں شامل اہم افراد  کی فہرست اور دعوے ایک دوسرے سے متصادم لگتے ہیں ۔۔ذیل میں عبوری حکومت کے حوالے سے متعلق مختلف کتابوں میں  موجود مواد  پیش کیا جا رہا ہے  تاکہ اس سیٹ اپ کے بارے مزید تجزیہ کیا جا سکے۔۔

 میجر برون۔۔۔میجر برون برٹش آفیسر کی کتاب بغاوت گلگت کے مطابق اس عبوری کونسل یا حکومت  میں شامل افراد کے نام یہ تھے۔۔شاہ رئیس صدر،کیپٹن حسن خان کمانڈرنچیف،کیپٹن سعید چیف آف دی ملٹری،لفٹننٹ غلام حیدر کمشنر،سلطان حمید  کو چیف آف دی پولیس جبکہ برون اور میتھیسن عبوری حکومت کے مشیر

کیپٹن حسن خان۔۔۔کیپٹن حسن خان کی کتاب شمشیر سے زنجیر تک جو نام اور عہدوں کی تفصیل ہے وہ کچھ یوں ہے۔۔۔شاہ رئیس صدر، سعید درانی ڈپٹی کمانڈرنچیف،لفٹننٹ غلام حیدر پولیٹیکل ایجنٹ،بابر خان کوارٹر ماسٹر،میجر برون اور میتھیسن کمانڈرنچیف کے مشیراور کرنل حسن خود انقلاب کے سربراہ اور چیف مارشلا ایڈمنسٹریٹر

گورنر گھنسارا سنگھ۔۔گھنسارا سنگھ جو انقلاب کے وقت گلگت کے گورنر تھے اس کی کتاب گلگت ۱۹۴۷ سے پہلے جو نام درج ہیں وہ یہ ہیں ۔میجر برون،کیپٹن احسان علی، کیپٹن حسن خان، کیپٹن سعید درانی،لفٹننٹ غلام حیدر،صوبیدار میجر بابر خان،وزیر ولایت علی،اور ایک مقامی سول شخص شاہ رئیس خان اس میں کسی کے ساتھ عہدے ظاہر نہیں

صوبیدار شاہ خان۔۔صوبیدار شاہ خان کی کتاب گلگت سکاوٹس  میں درج شدہ نام یہ ہیں۔۔شاہ رئیس خان صدر، لفٹننٹ غلام حیدر سول معملات کے انچارج، کیپٹن حسن خان تمام عسکری معملات کے انچارج میجر برون صدر کا مشیر،اور صوبیدار میجر بابر خان کوارٹر ماسٹر

لفٹننٹ غلام حیدر۔۔لفٹننٹ غلام حیدر کے مطابق  پروفیسر عثمان علی کی کتاب انقلاب گلگت میں درج فہرست کچھ اس طرح ہے۔شاہ رئیس خان صدر،حسن خان کمانڈرنچیف،سعید درانی چیف آف ملٹری سٹاف، سلطان حمید پولیس چیف اور لفٹننٹ غلام حیدر خود کمشنر

جاری ہے      

انقلاب گلگت اور گلگت سکاوٹس

جتنے منہ اتنی باتیں جیسے میں نے پچھلے عنوانات میں ذکر کیا ہے کہ قدیم تاریخ میں جہاں تانے بانے نہ ملتے ہوں تو وہاں لوک گیت یا لوک کہانیوں سے  یا مفروضے قائم  کیا جا سکتا ہے  لیکن جہاں چشم دید گواہ موجود ہوں اور  بہت سارا لکھا ہوا مواد بھی  وہاں مبالغہ کرنا یا جھوٹ سے کام لینا دوسروں کی آنکھ میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔انقلاب گلگت کے حوالے سے بھی کچھ ایسی ہی صورت حال پائی جاتی ہے۔انقلاب  گلگت کے بارے انقلاب  میں شامل لوگوں میں سے چند ایک کی کتابیں بھی اب منظر عام پر ہیں  ان کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ  ان کتابوں میں دوسروں کو کوسنے اور اپنے کارناموں کو اجاگر کرنے  کا مقصد پہلے اور آزادی کی کہانی دوسرے نمبر پر نظر آتی ہے جس کی وجہ سے  قاری بڑی کنفیوژن کا شکار ہوتا ہے کہ کس کی بات کو صحیح اور کس کو جھوٹ سمجھا جائے ۔ میرے نزدیک ان کتابوں میں سچ کے ساتھ جھوٹ کی امزیش کی گئی ہے اور جو سچ ہے اسے کسی لکھاری  نے  سامنے لانے کی زحمت ہی نہیں کی ہے۔۔۔۔۔رہی بات مقامی دانشوروں کی  ان کی لکھائی میں بھی واقعات کی تکرار کے سوا اور کوئی بات نظر نہیں آتی اور سیاسی لکھنے اور تجزیہ نگاری  اب تک ناپید ہے  سوائے چند ایک دانشورون کے  باقی  وقت گزارو اور اپنا مطلب نکالو والی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔۔۔ 

جاری ہے

گلگت انقلاب کے بعد

گلگت ہیڈکوارٹر

 

 

 

 

گلگت اور مضافات

۱۔شکیوٹ

۲۔شروٹ

۳ہینزل

۴ جاگیر بسین

بسین پائین۵۔

۶۔شوٹی

۷۔نوپورہ

۹۔کارگاہ

۱۰۔امپھری

۱۱۔کھر۱۲ نائکوئی

۱۲۔ناروٹ

۱۳ برمس

۱۳،مجینی محلہ

۱۴کشروٹ

۱۵۔ڈومیال

۱۶۔کونوداس

۱۷۔سکارکوئی

۱۹۔نومل

۲۰۔ نلتر

۲۱۔دنیور

۲۲۔سلاطان آباد

۲۳ رحیم آباد

۲۴۔بگروٹ

۲۵۔جلال آباد

۲۶۔چھموگڑہ

۲۷،مناور

۲۸۔سکوار

۲۸

گلگت کے تاریخی مقامات

ہل گہ نال

ہل گہ نال ایک قدرتی مقام ہے  جو گلگت نگرل میں واقع ہے  یہ بجا طور پر قدرت کا ایک شہکار ہے  جو گلگت نگرل گائوں کے اوپر پہاڑ  پر قدرتی طور پر  ابھرا ہوا ہے ۔یہ قدرتی شہکار سب کی توجہ کا مرکز  ہے۔اس کے پیچھے تو انسانی کہانی تو ہو نہیں سکتی  اس کا علم اللہ ہی کو ہو سکتا ہے۔اس قدرتی شہکار کو میں بچپن سے دیکھتا  آرہا ہوں بچپن کیا میں تو اس کی گود میں پلتا رہا ہوں یعنی گلگت کا باسی۔ میں نے جب سے ہوش سمبھالا ہے میں  اس قدرتی شہکار کی تاریخی حوالہ جات تلاش کر رہا ہوں  اور اس کی حقیقت جکی کھوج میں ہوں لیکن  اس قدرتی شہکار کے بارے  کہیں سے بھی کوئی ایسی  کہانی  لوک داستان  یا تحریری مواد میرے ہاتھ نہیں لگا اور نہ ہی یہاں کے باسیوں کو اس بارے کوئی علم ہے ۔ممکن ہے بعد میں کوئی ماہر آثار قدیمہ  اس کا کھوج لگا سکے۔۔۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ  کسی کے پاس اس کے بارے معلومات ہوں جو میرے علم میں نہ ہوں۔میں جب بھی اس مقام کو دیکھتا ہوں تو مجھے حضرت آدم کے بیٹوں  ہابیل اور قابیل  کا جھگڑا  اور پھر ہابیل کا قابیل کو قتل کرنا  اور پھر دو  کوئوں کا کہیں سے آجانا  ایک کوے کا دسرے کو مارنا اور پھر زمین  میں  کوے کا کوے کو دفنانا  رہ رہ کر یاد آتا ہے ۔وہ اس لئے کہ قدرت انسانوں کو سیکھانے کے لئے وسیلے پیدا کرتی ہے ۔کوے کی حرکات دیکھ کر ہی ہابیل نے قابیل کو زمین میں دفنا دیا۔بلکل اس طرح  گلگت نگرل پہاڑ کے اوپر واقع ہل گہ نال کی ابھری ہوئی شبیہ  اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ  یہاں آباد ہونے والی انسانی آبادی  کو بھی  کھیتی باڑی  سیکھانے کا قدرتی بندوبست کیا گیا ۔اور ممکن ہے کہ لوگوں نے اسی کو دیکھ کر ہی  کھیتی باڑی ب کرنا شرو کر دیا ہو۔۔کبھی کبھی مجھے یوں گماں بھی ہوتا ہے کہ شائد گلگت اور آس پاس کے علاقے ہی دنیا کی پہلی آبادیا ہوں لیکن دوسری طرف  حضرت آدم کا  جنت سے  نکل کر مالدیپ میں اترنے کا قصہ اس گماں کو رد کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے  

جاری ہے

مغلی چیت

اگورتھم گری

کارگاہ بدھا

ہینزل سٹوپا

بھوپ سنگھ پڑی

تین سلطنتوں کا سنگم

مندر باغ

گورا قبرستان

زیارت گاہیں(دنیور،بازار اریا، سکول،امپھری(زیارت گاہئیں )

۱۔نلتر

 

 

ا 

 

جاری ہے



About the author

160