افغانستان میں تعلیم کے نظام کے متعلق علی شیر نوائی کے انسٹرکشنل اسسٹنٹ، رحیمہ کویش کساتھ ایک ملاقات

Posted on at

This post is also available in:

 


رحیمہ کویش علی شیر نوائی ہائی سکول کے انسٹرکشنل اسسٹنٹ ہے۔ وہ ہرات اور کابل صوبوں کے مختلف سکولوں میں کام کرتی رہی ہے۔


 


یہاں افغانستان کے تعلیمی نظام کے بارے میں اُسکی ایک مختصر مباحثہ ہے۔


 


فلم انیکس:- کیا آپ سکول کے تاریخ کے متعلق بات کرسکتی ہے؟


 


رحیمہ کویش:- عامر علی شیر نوائی 1990 میں قائم ہوا۔ یہ 2011 تک دو مختلف شفٹوں والا لڑکوں اور لڑکیوں کا سکول تھا۔ 2011 میں یہ سکول دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور اب یہ ایک لڑکیوں کا ہے اور ایک لڑکوں کا لیکن لڑکے تین شفٹوں میں پڑھ رہے ہیں۔ اِس کے 29 کلاسیں ہیں۔ 4000 سے زیادہ طلباء اور 155 اساتذہ ہیں۔


 


پہلے مرد اور عورت طلباء وطالبات کے تعداد 460 تھا اور ہر روز یہ بڑھتا ہے۔ اِس سکول کے دو عماراتیں ہیں جسکو ایک ایرانی نے بناۓ تھیں جسکا نام مخمل باف تھا۔


 


فلم انیکس:- براۓ مہربانی کیا آپ اپنے پس منظر اور تعلیم کے بارے میں بتاسکتے ہو؟


 


رحیمہ کویش:- میرا نام رحیمہ کویش ہے اور علی شیر نوائی ہائی سکول کے انسٹرکشنل اسسٹنٹ ہوں۔ میں نے 1878 میں عامیری ہائی سکول سے گریجویشن کی اور1979 کو عامیری ہائی سکول میں استاد کیطور پر منتخب کیا گیا۔


 


میں نے ہرات اورکابل کے مختلف سکولوں میں کام کیا ہے اور اخر کار 2008 کو علی شیر نوائی سکول میں انسٹرکشنل اسسٹنٹ منتخب کیا گیا۔


فلم انیکس:- اپکے سکول کے ابھی تک اچھے نتائج کیا ہیں؟


 


رحیمہ کویش:- اِن سالوں میں ہمارا سکول بہت ترقی کررہا ہے۔ یہ فزکس، کمسٹری، اور ریاضی لیبارٹری کیساتھ سجایا گیا ہے اور دو کلاسیں کمپیوٹر کی ہیں۔ ایک کلاس کو پی ار ٹی نے بنایا تھا اور دوسرا اب فلم انیکس نے بنایا ہے۔ یہ افغانستان میں بریٹش کونسل کے پانچ سکولوں میں سے ایک ہے۔ اس منصوبے کا مقصد ہرات میں اِن پانچ سکولوں (علی شیر نوائی، تاج روبائی، گوہرشاد، توحید، انقلاب) کو ملانا ہے اور اخر میں یہ برطانیہ سکولوں کے طلباء سے ملانا ہے تاکہ نۓ طریقوں اور نۓ ٹیکنالوجی کو سیکھئیں۔ علی شیر نوائی نے تصویر کشی اور نظموں کے مقابلے میں جیتا جو برٹش کونسل نے منعقد کیا تھا اور دوسرے سکولوں میں پہلا پوزیشن لے گیا۔


 


فلم انیکس:- آپ افغانستانی تعلیمی نظام کے بارے کیا سوچھتے ہے؟ اِسی کیسے ترقی دی جاسکتی ہے؟


 


رحیمہ کویش:- جسطرح ہر کوئی جانتا ہے کہ افغانستان میں تعلیمی نظام اچھی نہیں ہے اور سکولوں کے طلباء کیلۓ سیکھنے کیلۓ جدید طریقے نہیں ہیں۔ میری خیال میں یہ اچھا ہوسکتا ہے اگر ھم اپنے تعلیمی نظام بنیادی نقطہ سے شروع کریں۔ ہمیں چاھئیں کے سکولوں میں بیچلر ڈگری والے اساتذا کو نوکری دے دیں یا اساتذہ کیلۓ زیادہ تربیت دیں تاکہ اپنے علم کے مہارت کو استعمال کر کہ طلباء کو سکھائیں اور طلباء کو ایک الاتی ماحول فراہم کریں تاکہ وہ عملی طور پر بھی سیکھئیں۔


 


فلم انیکس:- اسکے علاوہ آپ افغانی سکولوں میں انٹرنیٹ کلاس روموں کیساتھ کیا تعمیر کرنا چاہو گے؟ بچوں کے کیا ضرورت ہے؟


 


رحیمہ کویش:- اِس کمپیوٹر کلاس کے علاوہ ہمارے طلباء کو کمپیوٹر تربیتی کورس کی بھی ضرورت ہوگی اور خوش قسمتی سے Afghan Citadel company  کیوجہ سے ہمارے سکولوں کے طلباء کیلۓ یہیی مضامین موجود ہونگے۔


 


اِس کے ساتھ  جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ سکولوں میں اچھے اور اعلیٰ کوالٹی تعلیم کیلۓ ہمیں ہمارے طلباء کیلۓ ایک اچھے اور الاتی ماحول کی ضرورت ہے مثال کیطور پر ہمارے طلباء سپورٹ میں حقیقی دلچسپ رکھتے ہیں لیکن اُنکے پاس سکولوں میں اچھے سہولیات موجود نہیں ہیں تاکہ والی بال، فٹ بال اور دوسرے کھیلیں کھیل سکیں۔


 


فلم انیکس:- اپ اپنے سکول میں ایگزامر نظام کے بارے میں کیا سوچھتے ہے؟


 


رحیمہ کویش:- جیسا کہ میں جانتی ہوں کہ ان لائن امتحانی نظام طلباء سے ان لائن امتحان لیتا ہے۔ یہ نظام طلباء اور اساتذہ کو بھی زیادہ سہولیات فراہم کرینگے اور یقینی طور پر افغانستان میں تعلیمی نظام کو ترقی دینگے اور تعلیمی نظام میں بہت بہتری لارہے ہے۔


 



About the author

AFSalehi

A F Salehi graduated from Political Science department of International Relation Kateb University Kabul Afghanistan and has about more than 8 years of experience working in UN projects and Other International Organization Currently He is preparing for Master degree in one Swedish University.

Subscribe 0
160