لینا روزبیح حیدری ۔وائس آف امریکہ کےآشناٹی وی کی نامہ نگارافغانستان میں ڈیجیٹل میڈیا اور صحافت پر بات کرتے ہوۓ

Posted on at

This post is also available in:


لینا روزبیح حیدری وائس آف امریکہ کے دری آشنا ٹی وی کی ایک اہم خبر نگار ہیں،لینا ایک مشہور اور ایوارڈ یافتہ افغان لکھاری ہیں اور دری زبان کی شاعرہ بھی ہیں۔انکے کام میں انگلش اور دری مختصر کہانیاں شامل ہیں ۔شاعری،سیاسی اور سماجی


  تبصرے شامل ہیں جو کہ دری پشتو اور انگریزی کی بڑی مطبوعات میں شائع ہوتے ہیں،انہوں نے مواصلات اور زرائع ابلاغ میں ڈگری لے رکھی ھےاور بیچلر ڈگری پولیتیکل سائنس میں اور بین الاقوامی تعلقات میں کونکورڈیا یونیورسٹی سے حاصل کی ہے،


ایف اے: سب سے پہلے کسچیز نے آپ کو متا ثر کیا کہ آپ صحافی بنیں ؟


لینا: جس چیز نے مجھے صحافی بننے کیلۓ اکسایا وہ افغانستان کی حالہ  تاریخ اور کئ وہ وجوھات تھیں جو پچھلے تیس سالوں سے افغانوں کو اذیت دے رھی تھیں۔کیونکہ ہر ایک افغان اس بارے  میں فکر مند تھا کہ آیا یہ صورتحال جسکے بارے میں روزانہ ریڈیو پر  وہ سنتے تھے کہ کیا انکی زندگی مین بھی امن اور محفوظیت آیئگی یا نھیں یہ ایک ایسا خواب تھا جو کہ افغان لوگوں کیلۓ پورا ہونا تھا۔


تو کئ افغان بچوں کی طرح میں بھی ریڈیو کو سنتے ہوۓ بڑی ہویئ ہوں۔اور اکثر صبح میں میرے والدین کا خبریں سننے پر میں جاگ جاتی تھی،وقت کیساتھ ساتھ مجھے سیاست اور صحفت میں گہری دلچسپی ہو گئ تھی۔جسکا بعد میں مین نے تعلیم میں اور پیشے میں تعاقب کیا۔ میں نے ایران میں مختلف کالموں اور تبصروں میں


پاکستان۔کینیڈا ،امریکہ اور افغانستان میں عدم تحفظ کی مختلف وجوہات کے بارے میں لکھا۔ اس دوران میں میں نے نشریاتی صحافت  میں دلچسپی لینا شروع کی اور ۲۰۰۳ میں وائس آف امریکہ کےساتھ کام شروع کیا ایک خبر نگار اور نامہ نگار کے طور پر ۔


ایف اے:کونسے موضوعات آپ کو بہت دلچسپ لگتے ہیں؟


لینا : مجھے عالمی سیاست اور خاص طور پر افغانستان کے بارے میں بہت زیادہ دلچسپی ہے۔اور  میں ان دونوں کے تعلق اور پیشرفت کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں کیونکہ یہ موضوع ایک دوسرے کے بھت قریب ہیں اور دونوں ایک دوسرے پر بہت اثر انداز ہوتے ہیں ۔افغانستان کے بارے میں خبروں پر میں زیادہ توجہ دیتی ہوں جن میں افغانستان کے بارے میں معلومات ہوں اور جو کسی نہ کسی طرح تمام دنیا سےتعلق  رکھتی ہوں ۔


ایف اے: طالبان کی حکومت کے بعد آپ افغانستان میں صحافت کو کیسے دیکھتی ہیں۔؟


لینا : طالبان کی شکست کے بعد پچھلے بارہ سالوں میں صحافت نے بہت زبردست ترقی کی ھے۔بیشک ایک افراتفری والی ریاست میں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔اور طالبان کی حکومت میں ایک فلم دیکھنا بھی بہت مشکل تھا۔ اور موسیقی سننا بھی بہت مشکل تھا ۔اور آجکل کے مقابل جب ۸۰ کے قریب ٹی وی چینل ہیں اور ۱۸۰ سے زائد ریڈیو سٹیشن ہیں ۔اور سینکڑوں کی تعداد میں پریس ہیں۔اور یہ سب آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔اسمیں حکومت ،نجی ادارےا ور این جی اوز شامل ہیں ۔جو کہ انکو سپانسر کرتے ہیں ۔اسکے علاوہ


،مجموعی طور پر خبروں اور صحافت کے معیار نے نمایاں طور پر پچھلے بارہ سالوں میں ترقی کی ھے۔اور اسی دوران بہت سے افغانوں نے انٹرنیٹ تک رسایئ حاصل کر لی ھے اور وہ اسکے زریعے بات چیت اور سوشل میڈیا کیطور پر استعمال کرتے ہیں اور خبریں اور معلومات حاصل کرنیکا ایک متبادل زریعہ کے طور پر بھی۔


مجھے  یقین ھیکہ یہ مزید بہتری اور ترقی کریگا اور آئندہ میں صحافیوں کے تحفظ کی کمی جیسے مسائل ،معیاری کام کی پیداوار ااور صلاحیت کی کمی اور پروگرامنگ ،پریس اور اظہار راۓ آزادی کو لاحق خطرات پر قابو پا سکیں گے۔


ایف اے : افغانستان میں ایک  خاتون صحافی کیطور پر کام کرنا اسکی اپنی مشکلات ہیں۔ خواتین صحافی اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران کونسے خطرات   سے درپیش ہوتی ہیں؟اور آپ  نے خود کو پیش انیوالی مشکلات کا کیسے سامنا کیا؟


لینا : سب سے پہلے طالبان کی وحشیانہ حکومت کو یاس کریں ۔جسمیں افغان خواتین کوم بہت سے بنیادی حقوق سے  روک رکھا تھا جیسے  کہ تعلیم تک رسایئ،روزگا اور زریعہ معاش کی تلاش،یا ایک  مرد یا ولی کے بغیر نقل وحرکت کی آزادی،


اجکل بہت سی خواتین پرنٹ میڈیا اور صحافت میں ہیں۔اور افغانستان کے شہروں میں اب مختلف بلاگرز بھی ہیں۔ جو کہ افغان خواتین کیلۓ ایک مضبوط آواز ہیں اور افغانستان کے آیئن کے مطابقمساوی حقوق کو آگے بڑھا رھے ہیں




۔لیکن ایک غیر محفوظ  اور انتہایئ روایئتی اور قدامت پسند معاشرے میں  پریس  کی تاثیر میں اضافہ ہوا ھے۔جسمیں کہ مردوں کو غلبہ حاصل ھے۔جو کہ کئ اافغان خواتین اور بلاگرز کی آواز کو دبا دیتے تھے۔کچھ پر طالبان کی جانب سے حملہ ھوا اور کچھ کو انکے خاندان والوں نے چپ کرا دیا ہے۔مجھے کئ بار تنقیدکا نشانہ بنایا گیا کہ میں کام پرا اور براڈکاسٹنگکے دوران حجاب کیوں نھیں پہنتی۔


تاہم لوگوں کو درپیش مشکلات اور افغانستان کے لوگوں کی مشکلات کو جیسے میں نے پیش کیا اب بہت سے افغانی اب میرے کام کی تعریف کرتے ہیں ۔اس لۓ میں اب بھی ان کی وجہ سے اپنا کام اور بھی محنت اور شوق کرتی ہوں



ایف اے۔ جیسا کہ میڈیا بہت زیادہ تبدیلیوں سے گزر رھا ھے اور کیونکہ آج کل آزاد صحافت میں مسلسل بلاگز اور کہانیاں آنلایئن موقع کی وجہ سے اپ ڈیٹ کر رھے ہیں۔ آپ کا ان مظاہر کے بارے میں کیا خیال ہے۔؟ اور کیا یہ افغانستان میں صحافت کو تبدیل کر سکتا ھے؟


لینا: مجھے لگتا ھیکہ معلومات اور ٹیکنالوجی کے میدان تیزی سے ترقی اور انٹرنیٹ کے زریعے میڈیا میں انقلاب آ گیا ھےْ؎


اور یہ سب بہت تیزی سے روایئتی طریقوں پر پرنٹ اور نشریاتی میڈیا کو غالب کر رھا ھے۔ مثال کیطور پر سوشل میڈیا اور بلاگنگ کے اثرات جو کہ بہت سے غیر معمولی اور مقبول زرائع جو معلومات اور خبروں کے متبادل کیطور پر ہیں


عرب موسم بہار سے ہم نے یہ سیکھا ہیکہ ا گرچہ  روایئتی پریس کو رپورٹنگ کی رسایئ حاصل کرنے کو محدود کر دیا گیا تھاکہ وہ کیسے اور کہاں عام لوگوں کی رپورٹ کریں اب تو اکثر لوگ اپنے موبایئل کے کیمرے کا استعمال کرتے ہیں اور اپنے اردگرد کی تصاویر اور ویڈیوز بنا کر آنلایئن کر دیتے ہیں۔


روایئتی میڈیا اسکا احاطہ نہیں کر سکتا۔کہ یہ تمام عوام کو خبریں پہنچایئں،لہذا یہ ایک عالمی رجحان ھے۔افغانستان اور اس جیسے کئ ممالک میإ جہاں صحافت کو ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑی ھے وھان پر ان نۓ طریقوںسے کم سنسر شدہ اور شفاف طریقے سے صحافت پیش ہو رھی ھے۔


ایف اے: صحافت میں آپکی پیرویکرنیوالے نوجوانوں کے اور افغان لڑکیوں کیلۓب آپ کا کیا مشورہ ہے۔؟


سب سے پہلےمیں یہ کہنا چاھتی ہوں کہ حوصلہ افزایئ کرنے سے بہت سے فوایئد حاصل ہوتے ہیں۔ان افغان خواتین اور لڑکیوں کو جوایک صحافی ھو یا صحافت کا طالبعلم کے طور پر کھلے زھن کیستھ اپنی خواھش سے کام کرنا چاھتے ہوں۔ اور ساتھ ھی ان کو اپنے کام پر یقین رکھنا چاھیۓ تا کہ وہ جبہت یقین اور جذبات سے بھر پور ہو کر اپن اکام کریں۔


جسطرح میں بڑھ رھی تھی اپنے سکول اور یونیورسٹی کے دور سے لیکر ابتک میں نے مختلف مسائل پر پرھنا کبھی نہیں چھوڑا تھا۔جنمیں سیاسی سماجی ،ثقافتی  ،سایئنسی ،تکنیکی ،اور اقتصادی موضوعات پر بولنے اور گفتگو کرنے میں مدد ملتی ہے۔اس سے بحث مبااحثہ کرنے اور سوالات کرنے میں مدد ملتی ہے۔جب میں انٹرویو ،رپورٹنگ ،یا مختلف پرگراموں کیلۓ مواد پیدا کر نے ہفتہ وار  کیلۓ بہت مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔میری خواھش ہیکہ اگر کویئ افغان لڑکی اس پروفیشن میں آنا چاھتی ہو تو میں ہر وقت اسکی ہر طرح کی مدد کرنے کیلۓ تیا ر ہوں۔ 


فرشتہ فروغ


میرے مزید بلاگز اور ویمنز اینکس پر سبسکرایئب کریں تا کہ آپ  کو میرے آنیوالے بلاگز مل سکیں 


.



About the author

syedahmad

My name is Sayed Ahmad.I am a free Lancer. I have worked in different fields like {administration,Finance,Accounts,Procurement,Marketing,And HR}.It was my wish to do some thing for women education and women empowerment .Now i am a part of a good team which is working hard for this purpose..

Subscribe 0
160