ٹیلیوژن ، پروپگینڈا اور ہپناٹزم

Posted on at



ٹیلی وژن کو تفریح اور وقت گزارنے اور معلومات کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے، ٹیلی وژن کو   philo Farnsworth نے 1927 میں ایجاد کیا تھا،  سب لوگ اس کو شوق سے دیکھتے ہیں اور بچے تو اس کے دیوانے ہیں ، ٹیلیوژن پر فلمیں، ڈرامے،  کارٹون، خبریں ، معلوماتی پروگرام اور اشتہار دکھائے جاتے۔


کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اس آلے اور اس کے ذریعے ہمارے تک پہنچنے والے پیغامات کا ہمارے ، ،ہمارے بچوں اور ہمارے معاشرے پر کیا اثر ہو رہا ہے، ہمارا معاشرے بگڑ رہا ہے، اقدار تبدیل کی جارہی ہیں، لوگوں کو ذہنی غلام بنایا جا رہا ہے، اور اس سب کا ہمیں پتہ بھی نہیں چلنے دیا جارہا، اس کا طریقہ واردات کیا ہے، اور یہ کیسے کام کرتا ہے۔



 ٹیلی وژن دنیا کا سب سے بڑا عوام کو ہپناٹزم (ذہن کو کنٹرول )کرنے کا آلہ ہے،  اور اس کے ایجاد کرنے کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ اسے عوام کے ذہنوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایجاد کیا اور پھیلایا گیا ہے،  اس کے ذریعے با آسانی کسی بھی جھوٹی خبر یا معلومات یا غلط خیال کو لوگوں کے ذہن میں ڈالا اور پختہ کیا جا سکتا ہے،   ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ایک جھوٹ کو 42000 دفعہ دہرایا جائے تو سننے والا اس کو سچ سمجھنے لگ جائے گا، آپ دیکھیں کہ ٹی وی پر آپ کو بہت سے الفاظ روزانہ کئی دفعہ سننے کو ملتے ہیں۔



اگر آپ کسی ٹی وی دیکنے والے کو دیکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس کا چہرے بالکل اس شخص کی طرح ہوتا ہے کہ جس کو ہپناٹائیز کیا گیا ہو، آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ جب کوئی یا آپ خود ٹی وی دیکھ رہے ہوتے ہیں تو اس میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ آپ کو اپنے پاس کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی یا اگر آپ کو کوئی بلائے یا آواز دے یا آپ سے  کوئی بات کرے تو آپ اس بات کو نہیں سن سکتے  اگرچہ بلانے والا آپ کے پاس ہی کیوں نہ ہو، مگر جب وہ آپ کو جھنجوڑے یا بہت زور سے آواز دے تو آپ کو ایسے لگتا ہے کہ جیسے آپ اچانک بیدار ہوگئے ہیں ۔



 جی ہاں اس وقت آپ کا دماغ مکمل کنٹرول میں ہوتا ہے، ہپناٹزم کی ایک شرط یہ ہےکہ اس کا مفعول(ہپناٹزم ہونے والا) اپنی رضا مندی سے اس کی اجازت دے اور تیار ہو، تو ہم سب ٹی وی کے سامنے بیٹھتے وقت یہی کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو اس آلے کے حوالے کر دیتے ہیں، اور کو ہمارے ذہن میں معلومات بھرنا شروع کر دیتا ہے، ہپناٹزم کی ایک اور شرط یہ ہے کہ مفعول(ہپناٹزم ہونے والا)فاعل یعنی (ہپناٹزم کرنے والے) کی آنکھوں میں دیکھے گا، تو یہ بات بھی نوٹ کرلیں کہ جتنے بھی نیوز ریڈر اور پروگرامز کے اینکر ہوتے ہیں وہ سیدھا کیمرے کی طرف دیکھ کر بات کرتے ہیں جو کہ سیدھا آپ کی آنکھوں میں دیکھ رہے ہوتے ہیں اور آپ کے ذہن میں باتیں فیڈ کر رہے ہوتے ہیں۔



بہت سے لوگ اس طرح کے ہوتے ہیں کہ وہ اشتہار دیکھ کر اس چیز کے سحر میں گرفتار ہو جاتےہیں اور جب وہ اس چیز کو خرید لیتے ہیں تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ انہیں اس چیز کی ضرورت ہی نہیں تھی یا بہت کم ضرورت تھی، یہ سب بھی ہپناٹزم کا کمال ہے کہ ٹی وی کے ذریعے ہمیں ایسی چیزیں بیچی جارہی ہیں کہ جن کی ہمیں ضرورت ہی نہیں،  مہنگی ترین گھڑیاں، موبائل، اور پھر موبائل کے پیکج کہ جن پر ہم فضول پیسہ اور وقت برباد کردیتے ہیں،  کوکا کولا، پیپسی، چپس، میکڈونلڈ، سیگریٹ، شیمپو، بیوٹی سوپ، کاریں، غرض کہ لا تعداد ایسی اشیاء ہیں کہ جن کی ہمیں اشد ضرورت نہیں یا بالکل ضرورت نہیں  مگر ہم وہ خریدنے پر مجبور ہیں۔


ٹیلی وژن کا flicker rate برابر ہے انسان کے تحت الشعور کے flicker rate کے  برابر ہے اس لیے ٹیلیوژن کے ذریعے دیئے گئے مخفی پیغامات((subliminal messagsکو ہمارا شعور نہیں پڑھ سکتا یا اس کا ادراک نہیں کر سکتا، یہ کام ہمارا تحت الشعور با آسانی کرلیتا ہے اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا،  ٹی وی پر اگر ایک اشتہار یا خبر کے درمیان جو کہ انتہائی زیادہ فی سیکنڈ فریم (تقریباً 24 سے 48 فریم فی سیکنڈ)کے حساب سے چل رہے ہوتے ہیں   ایک فریم کسی مخفی میسج کا چلا دیا جائے تو ہمیں معلوم بھی نہیں ہوگا اور ہمار ا تحت الشعور اس بات کو یاد کر لے گا، بین الاقوامی پروپگینڈا اسی طرح کیا جاتا ہے۔



امریکہ اور یورپ میں اس چیز کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال کیا گیا ہے، لوگو کے ذہن میں ایک بات کو بار بار کہ کر کے پختہ کر دیا گیا ہے، ایک جھوٹ کو تقریبا سچا ثابت کر دیا گیا ہے، کہا جاتا ہے کہ  امریکہ اور مغرب کے عوام کو ایک ایسی مشین بنا دیا گیا ہے کہ جس کا کام کمانا اور خرینا اور ٹیکس دینا ہے، اسے یہ ادراک نہیں ہے کہ میرے ٹیکس کا پیسہ کہاں استعمال ہو ریا ہے، اس مقصد کے لیے ٹی وی پر مختلف قسم کے تفریحی، جنسی، اور ذہنی آزمائش کے پروگرام دکھائے جاتے ہیں ، بہت سے لوگ  اپنی تمام ذہنی توانائیاں ان میں استعمال کردیتے ہیں ، اور جو لوگ تھوڑا بہت ادراک رکھتے ہیں ان کے لیے ٹاک شوز منعقد کیے جاتے اور ان کو غلط بات بتائی جاتی ہے، اس کے بعد بھی جو لوگ پروپگینڈا میں نہیں آتے ان کی تعداد اتنی ہے کہ کوئی معنے نہیں رکھتی۔



ٹیلی وژن نے ہمارے معاشرے میں جتنا بگاڑ پیدا کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے، آج سے 40 سال پہلے کے حالات کا جائزہ لیں اگر آپ نہیں جانتے تو اپنے بزرگوں سے معلوم کریں اور آج کے حالات کا بھی جائزہ لیں آپ کو فرق بہت واضح محسوس ہوگا، آج کل کی فحاشی، عریانی، جرم بہت زیادہ ہو چکے ہیں اقدار  اور اطوار سب تبدیل ہو چکے ہیں  اور اس میں سب سے بڑا حصہ اسی ٹی وی کا ہے ، اس کے شر سے محفوظ رہیں اور اپنے بچوں کہ بھی محفوظ رکھیں۔


طارق محمود 


22 دسمبر 2013


 



About the author

160