کیا ٹیلی ویژن بچوں کے لئے بہتر ہے.

Posted on at


یہ سہی ہے کہ میڈیا کسی بھی معاشرے کے لئے ایک زور آور تلور کی حیثیت رکھتا ہے اور موجودہ دور میں کسی چیز کی تشہیر میں جس قدر مواسّر\\کردار الیکٹرونک میڈیا نے اور پرنٹ میڈیا نے ادا کیا ہے کوئی ادارہ ایسی حیثیت کا حمل نہیں ہو سکتا.اس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بڑوں کی نسبت بچے میڈیا سے بوہت اثر لٹے ہیں لہٰذا ٹیلی ویژن پولکے بننا والوں کے لئے ضروری ہے کہ وو میری اور نہایت عمدہ پروگرامے اس انداز میں دکھایئں کہ بچے ان سے اچھا تعصّرلیں،          

ٹیلی ویژن سکرین پر اچھے اور برے ہر طرح کے کردار دیکھے جاتے ہیں ،چونکہ بچوں کے ذہین نہ پوختہ ہوتے ہیں اور شعوری طور پر فورن اثر قبول کرتے ہیں .افسوس کی بات یہ ہے کہ وو منفی اثر زیادہ جلدی قبول کرتے ہیں،دنیا بھر کے چینل دیکھ لیں بچوں کے لئے درس و تدریس کھل کود ذہنی نشو نما اور جدید ایجاد پر منفی پروگرام پیش کرنے کی بجے درسو تدریس اور کھیل کود کے پروگرام زیادہ دکھایی جائے ہیں .وو بھی اتنے غیر دلچسپ کہ بچے اپنا بیشتر وقت ڈراماس ،فلمس اور موسیقی کے پروگرام کو سننے میں گزر دیتے ہیں.ایسے میں مندرجہ ظل اثرات ان کی شخصیت پاس ہوائی ہو جاتے ہیں.        

           

مار دھار ،ایکشن سے بھر پر فلم دیکھنے سے صابر و تسدّد کا فروغ
مناسب تفریح مہیا نہ ہونے کی صراط میں ہلہ جویی و فریب کاری کے طریقوں میں اضافہ نگاہوں کی کمزوری،
پڑھایی سے غفلت ورزش و جسمانی ہرقات سے محرومی ،اعصابی ضاف ،دستی وغیرہ ،         

    

ان منفی اثرات کے پیش نظر ہوتا تو یہ چاہیے کہ بچوں کو ٹیلی ویژن کے سامنے کام بیٹھنے دیں اور انہیں انتخاب کا سلیقہ سکھائیں ،مگر ام طور پر ہوتا یہ ہے کہ بچے ہر نصیحت سے بے بہار ہو کر صرف تو دیکھتے رهتے ہیں.      

            

ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں کے لئے پیش کے جانیوالے پروگرامے بہت حساس اور اہم ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں ان [پروگرام کی طرف جو تواججہ دی جاتی ہے ،انکی غیر میری ہونے پر جس قدر تنقید اور نوکتہ چینی ہوتی ہے ،شاید کسی اور پروگرام نہیں ہوگی لوگ اور بلکسوس پرنٹس ان پروگرام کے بچوں پر اثرات خاص طور پر ملاوواس ہونے کے جرائم کے لئےقانونی شکنی جاسوسی بدتمیزی اور جرائم کے لئے بچوں کے معصوم ذہنوں میں ترغیب پیدا کرنے کے منفی عوامل میں بچوں کے ملواس ہونے کے خدشاہت پر موزترب و پریشان رهتے ہیں،اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بچوں کے پروگرام لکھنے اور پیش کرنے والے کا کثیرال موطالیہ ہونا ضروری ہے.اسے بچوں کی نفسیات سے آگاہی ہو .جن بچوں کے لئے پروگرام کیا جارہا ہے ان کے ارد گرد کے مذہبی .سماجی ،ثقافتی،معاشی،مواشرتی اور سیاسی حالت کا گہرا موشاہدہ ہو،مگر ہمارے ہاں بچوں کے پروگرام کے پرودکر حضرات اکثر و بیشتر ان باتیں کی طرف توجہ کو ان میں اس حد تک دلچسپی ہوتی ہے کہ ٧٠%کمرشل پروگرام بچوں کو زبانی یاد ہو جاتے ہیں یوں پروڈیوسرز کی ذمّہ داری کافی حد تک بڑھ جاتی ہے.کہ انہیں بچوں کے علاوہ ہر طرح کا پروگرامے اس ترتیب سے بنانا چاہیے کہ بچے ان سے کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کریںبچوں کو ٹیلی ویژن کے مضر اثرات سے بچانے کے لئے ان تجاویز پر غور کیا جائے تو بوہت بوہت بہتر ہوگا،-     

بچوں کے پروگرام زیادہ تر بصری مواد پر مشتمل ہوتے ہیں لہٰذا کسی بھی پروگرام میں پکترے کی بجاے کرداروں کی شکل میں ابلاغ کرایا جائے پکچر کی صورت میں ہی کہانیاں بتایی جائیں،

صرف طلسماتی یا الف لیلیٰ پروگرم بنانے کی بجاے جدید ٹیکنالوجی ،سائنس ،فنکشن اور کومپٹریزے پروگرام بناے جایئں مگر ایسے نہیں کہ غیر فطری محسوس ہوں، 

مذہبی اور تدریسی پروگرام اس انداز میں ترتیب دیے جایئں کہ ٹیلی ویژن اصل مینوں میں ایک ٹیچر کا کردار ادا کرے،

 

 

 



About the author

abid-khan

I am Abid Khan. I am currently studying at 11th Grade and I love to make short movies and write blogs. Subscribe me to see more from me.

Subscribe 0
160