بچوں کی شخصیت

Posted on at


بچوں کی شخصیت والدین کے گرد گھومتی ہے اور ایک خاص عمر تک بچے ہر معاملے میں ان کے موحتاج ہوتے ہیں اگر چھ بچے کی بنیادی ضروریات کا پورا پورا خیال رکھنا والدین کا فرض ہیں مگر اس کے باوجود بچے زیاداگی میں کی مارشل سے گزرتا ہے ہر معاملے میں والدین کی طرف رجو کرتے ہیں کھانے ،پینے،سونے،جاگنے،گھمنے،پھرنے سے لیکرا باتھروم تک جانے جیسے معملات کے لئے وو والدین کا دست نگار اور یہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک کہ بچے خود اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو جاتے یعنی خود کفیل نہیں ہو جاتے اس کے بعد وو وقت بھی آتا ہے جب والدین اپنے مسائل کے حل کے لئے اولاد کے موحتاج ہو جاتے ہیں ، 

یوں یہ تعلق جس پر کہ دنیا کھڑی ہے یعنی والدین اور اولاد کا تعلق عمر بھر کسی نہ کسی طور اور کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہتا ہے لازمی بات ہے کہ بچوں والدین کی شخصیت سے زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت متاثر ہو سکتا ہے -ایسا شعوری طور پر بھی ہو سکتا ہے اور لا شوری طور پر بھی بلکہ وراستی ہوی ہیں ان کی شخیت ادھوری رہ جاتی ہے اور کہیں نہ کہیں خولہ باقی رہ جاتا ہے،یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے یہ نتائج اخذ کیا ہے کہ اگر چھے بنیاد ضروریات کے لئے بچہ والدین کا موہتاج ضرور ہوتا ہے مگر ایک انفرادی شخصیت کی تکمیل کے لئے اسے والدین کی نہ تو ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہونی چایئے کون کہ والدین سے متاثر ہونے والے زیادہ تر بچے وو ہوتے ہیں،جو ہر معاملے میں والدین کے مرہون ا منّت ہوں یا خود سے کوئی کام یا مثلا حل کرنے کے کبی؛ نہ ہوں ،ایسے بچے زندگی کے ہر کام میں صرف اور صرف والدین پر انحصار کرتے ہیں اور خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے ان کی شخصیت بری طرح متاثر ہوتی ہے،

ماہرین نے کیی ایسے نوجوان کے تجزیات کے بعد یہ ریے دی ہے کہ والدین بنیادی ضروریات کی حد تک تو بچوں سے بھر پر ان ٹچ راہیں مگر یہ کوشش ہر گز نہ کریں کہ انکی اولاد ان کی شخصیت کا عکس ثابت ہو-ایک مضبوط شخصیت تبھی بنتی ہے جب بچہ سچول اور اپنے ہم جولیوں میں رہ کر زندگی کے کی ختے میٹھے تجربات سے گزر تا ہے روزانہ نت نے لوگوں کا سامنا کررتا ہے اچھے برے کو خود اپنی نظر سے تولتا ہے غلط اور سہی کے فرق کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے ہر وقت والدین کے قریب رهتے ہوے وو ایسے تجربات سے نہیں گزرتا کیوں کہ والدین اس کا مسلح ہ کر دتے ہیں مگر بھر کی دنیا کی چوں دھوپ اسے بوہت کچھ سختی ہے جس سے اس کی شخصیت میں کی تبدیلیاں بھی رو نما ہوتی ہیں جو مثبت بھی ہو سکتی ہیں اور منفی بھی بھر حال زندگی کے نشیب و فراز اس میں قوت ارادی پر امید،استقلال ،حوصلہ،اور لگن جیسی صفات ضرور پیدا کرتے ہیں،

اور یہ وو خوبیاں ہیں جو ایک مضبوط شخصیت کا حصہ ہوتی ہیں ،اگر والدین کی موحبّت اور توجہ بھی بچے کی زندگی کی گنیادی ضرورت ہے اور اس کی شخصیت بوہت اچھے اثرات موراتتب کرتی ہے .مگر یہی کافی نہیں بچے کیلئے اپنے ہم عمروں کے درمیان رہنا اور کھیلنا دوستوں سے روابط ہم کلاسس فلّو سے تعلّق یہ ایسے رشتے ہیں جو بچے کو ایک نارمل اور بھر پور شخصیت بنانے میں مدد ماوں سبط ہوتے ہیں اپنی روابط و شخصیت بننانے میں مدد و ماون سبط ہوتے ہیں اپنی روابط و تعلقات سے وو کی تجربات اور مراحل سے گزرتا ہے اور پولش ہوتا ہے،

برے بڑے اچھے اسکول کا بنیادی مقصد بچے کی شخصیت کو سنوارنا ہوتا ہے،ایسے سکولز میں بچے کی ہر وو ایگنمنٹ مسترد کردی جاتی ہے جسم میں اس نے والدین سے مدد و رہنمایی حاصل کی ہو .اور ہر اس کام کی حوصلہ افزایی کی جاتی ہے جس میں خوا جھول ہو مگر یہ صرف اور صرف بچے کی اپنی کوشش کا نتیجہ ہو.

یہاں یہ بات قبلے توجہ ہے کہ صرف والدین کی آغوش ،میں رہنے ولا بچہ بھی اور والدین سے بلکل کٹ کر زندگی گزارنے والا بچا بھی کمزور شخصیت کا مالک ہوتا ہے ایک اچھی شخصیت کے لئے والدین کی توجہ اور اچھے ماحول اچھے دوست اور اچھے تعلیم ادارہ ضروری ہے ،اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بچے کی پہلی تربیت گاہ گھر ہے بلکہ ماں کی آغوش ہے بچے کی بنیادی ضرورتیں یعنی خوراک ،صحت،کپڑا اور تعلیم اس کا حق ہے اور یج ہر والدین کا فرض ہے اس کے ساتھ والدین کی توجہ اور ایک حد تک انکی رہنمایی اس کے بعد بیرونی دنیا سے بچے کا صحت مندانہ تعلّق یا وو عناصر ہیں جو ایک کامیاب شخصیت کے پیچھے کار فرما ہیں،

یہاں کامیاب کا لفظ و وضاحت طلب ہے،اس سے ہماری مرد ایسی سخصیت جو زندگی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کا ازم رکھتی ہو اچھے مستقبل کے لئے کوشاں رہا،اور کی ایسی خوبیوں کی مالک ہو جو ایک بہترین تعلیمی ماحول میسر ایگا لازمی بات ہے کہ وو ایک اچھی شخصیت ہو گی

دوسرے ممالک میں اس نظریے کو تقویب مل رہی ہے کہ بچے والدین سے زیادہ وقت الگ ہی رہیں اس معاملے میں ماہرین کے دو گروپ کے درماین اختلافات پے جاتے ہیں.مگر کہا جاتا ہے کہ نظریہ میں بیشتر اختلافات کے باوجود ویسوں موجود ہے ،مگر مشرقی روایت چن کہ مغرب کے بلکل بار عکس ہیں اور ہمارے ہان بچے بلکل ہی خود موختار زندگی گزرنے کے آدھی نہیں اس لئے یہاں یوروپ کے نظریے کا عملی شکل اختیار کرنا نہ ممکن ہے،ہن یہ بات درست ہے کہ بچے پر والدین کی شخصیت کا زیادہ اثر ٹھیک نہیں مگر اس کے یہ بھی مطلب نہیں کہ بچے والدین سے زیادہ وقت الگ ہی راہیں.توازن ضروری ہے اور ویسے بھی ہممرے ہاں والدین کے بغیر ایک پرسوکوں زندگی کا تصور نہ ممکن ہے بلکہ ہم ایسی ہی زندگی کے عادی ہیں اور رہیں گے.



About the author

abid-khan

I am Abid Khan. I am currently studying at 11th Grade and I love to make short movies and write blogs. Subscribe me to see more from me.

Subscribe 0
160