مسلمانوں کی حالت زار

Posted on at


 

"محبّت کا جنون باقی نہیں تھا

مسلمان تجھ میں خون باقی نہیں تھا

صفیں کج، دل پریشان،سجدہ بے ذوق

کہ جذب اندروں باقی نہیں تھا"

 

میں کئی دنوں سے یہ سوچ رہا تھا کہ اسکول  مگزیں کہ لئے کس عنوان پر مضمون لکھوں میرے زہن میں بہت سے عنوان تھے- جن میں مجھے یہ سب سے اچھا لگا کیوں کے یہ عنوان روشنی ہے امت کے لئے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیرونی امدار کے متلاشی مسلمانوں کے لئے، عیش و عشرت  میں مبتلا مسلمان حکمرانوں ، شہزادوں اور بادشاہوں کے لئے

 

 آج اگر ہم عالمی سیاست کی باساط شطرنج پر نظر کریں تو صاف ظاہر ہو جائے گا کہ  مسلمان ممالک کی حثیت اس علمی نظام میں  پیادہ سپاہی سے زیادہ نہیں ووہ  محض قربانی کے بکرے ہیں وو دشمن کے لئے ترنوالہ – یوں کہنے کو تو اقوام علم میں بےشمار مسلم بھی ہیں- بلندوبالا عمارتیں اور عیش کدے علیشاں محل بھی ہیں اور حکمرانی کا شوق پورا کرنے کے لئے تقریباًن ایک ارب مسلمان عوام بھی

 

لیکن سوال یہ ہے کہ علمی بساط شطرنج میں ان مسلمان ممالک کی حثیت کیا ہے؟ محض ایک طفیلی کی، تابع مہمل کی اقتصادی امداد اور امن کی بھیک مانگنے والے کی-

 

عالمی سیاست کا یہ نقشہ، یہ منظر اور یہ تجربہ پکار پکار کر شیخ شیخ کر مسلمانوں کو دار پیس خطرے کی نشان دہی کر رہا ہے اگر یہ صورت حال جاری رہی تو مسلمانوں کا مستقبل------اللہ اسے محفوظ رکھے

لیکن مسلمان ہے کہ ماضی کے سہانے خوابوں میں ڈوبے، مستقبل کے خطرے سے بے نیاز، نہ اتفاقی اور فرقہ وارانہ اختلاف کے جھگڑے میں پر کر اپنے ہی پیروں پر مسلسل کلہاڑی مرتے چلے ا رہے ہیں ہاں اگر ان سے کبھی کچھ ہوتا تو تقدیر کا شکوہ ضرور کرتے ہیں اور اس صورت حال کو ماضی مولا سمجھ کر خاموش ہو جاتے ہیں-

میں علامہ اقبال کے الفاظ میں سب سے پوچھتی ہوں-

"تیرے دریا میں طوفان کیوں نہیں؟

خودی، تیرے مسلمان کیوں نہیں

عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں کیوں نہیں"

 

اے کاش اے کاش!!!! مسلمانوں کو خطرے کا احساس ہو جائے- ان کی بے حسی ختم ہو جائے، وو فرقہ وار یت سے تائب ہو جائے- وہ ارب و عجم کی تفریق ختم کر دیں اور اپنے خدا سے رشتہ جوڑ لیں-

بلکل اسی طرح جس طرح غزوه بدر کے موقع پر، غزوہ خنرق کے موقع پر، صلیی جنگوں کے درمیان، پانی پت کے میدان میں اور دور کیو جائے- افغانستان اور روس کے حالیہ دور میں اللہ نے ان کی مدد کی تھی-

بسس شرط صرف یہ ہے کے مسلمانوں کو اندازہ ہو جائے کہ واقعی اگر انہوں نے اتحاد و اتفاق سے کام نہ لیا تو ان کا مستقبل محفوظ نہیں رہے گا کیوں کے ان کی مجودہ حالت سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کےوہ  خواب غفلت میں ہیں اور یہ خواب غفلت نہیں تو اور کیا ہے کے کشمیر اور فلسطین آج بھی یہود و ہنود کے قبضے میں ہیں

میرے پاس پڑھنے والوں کے لئے یہ ہی پیغام ہے کے

"تو انقلاب کی امداد کا انتظار نہ کر

جو ہو سکے تو ابھی انقلاب پیدا کر

قلم نگار:ہمنا خان  




About the author

hamnakhan

Hamna khan from abbottabad

Subscribe 0
160