پاکستان میں تعلیم اور تعلیمی ترقی

Posted on at


تعلیم معاشی اور معاشرتی ترقی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس لیے انسانی وسائل کو ترقی دینے  اور معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے تعلیم کے شعبے میں مناسب سرمایہ کاری بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں حکومت نے ہر پانچ سالہ منصوبے میں تعلیم پر خاصی توجہ دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر وہ نتائج سامنے نہیں آتے جو تعلیم کے میدان میں آنے چاہیے تھے۔


کسی ملک میں تعلیمی ترقی جانچنے کے لیے ایک اہم معیار وہاں کی شرح خواندگی ہوتاہےیعنی سو میں سے کتنے افراد خواندہ ہیں۔ حکومت کی کافی کوشش کے باوجود پاکستان کی شرح خوندگی 1998ء کی مردم شماری کے مطابق 45 فی صد اور 2004ء کےاندازوں کے مطابق54 فی صد ہے ۔ بھارت،چین، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی شرح خوندگی پاکستان سے ذیادہ ہے۔


سکول جانے والی عمر کے بچوں میں آبادی میں تیز رفتار اضافے کے باعث  ایسے تمام بچوں کو تعلیم فراہم کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ تمام بچوں کے پرائمری سکول میں داخلے کا ہدف حاصل کرنا بھی دشوار ہے کیونکہ ان کے لیے سکولوں میں جگہ فراہم کرنے کے لیے بہت ذیادہ وسائل درکار ہیں۔ 1990ء میں سکول جانے کی عمر کے (5 سے 9 سال) بچوں کی تعاد ایک کروڑ 63 لاکھ تھی جب کہ آبادی میں مسلسل تیزی سے اضافے کے باعث 2005 ء میں سکول جانے  کی عمر کے بچوں کی تعداد بڑھ کر 2 کروڑ 70 لاکھ ہو گئی100 جی صد شرح شمولیت کا ہدف حاصل کرنے کے لیےسکولوں کی تعداد کو بڑھا کر سکول جانے کی عمر کے بچوں کی تعداد کے مطابق کرنا ہوگا۔ آبادی میں مسلسل تیزی سے اضافے کے ساتھ پرائمری سکولوں کی موجودہ تعداد 1 لاکھ 65 ہزار کو بڑھا کر 2005 ء میں کم ازکم 3 لاکھ کرنا ہوگی اور یہ اندازہ 2005 ء کے مطابق لگایا گیا ابھی تو 8 سال اور بھی گزر چکے ہیں اور اب تو 3 لاکھ بھی کچھ نہیں ہونگے اس لیے اب شرح خواندگی میں اضافے کے لیے پرائمری سکولوں کی تعداد کوکم ازکم 3 لاکھ کرنا ہوگی اور یہ اندازہ 2005 ء کے مطابق لگایا گیا ابھی تو 8 سال اور بھی گزر چکے ہیں اور اب تو 3 لاکھ بھی کچھ نہیں ہونگے اس لیے اب شرح خواندگی میں اضافے لے لیے پرائمری سکولوں کی تعداد کو 3 گنا ذیادہ کرنا ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تعداد کو بھی بڑھانا پڑے گا۔


ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں پرائمری سکول میں جانے والی عمر کے 15 جی صد بچے سکول میں داخل ہی نہیں ہو پاتے جب کہ صرف 40 فی صد بچے پرائمری اور مڈل تعلیم حاصل کرنے کے بعد  ثانوی سطع تک تعلیم حاصل کرتے ہیں جب کہ سری لنکا میں پرائمری سطع پر شرح شمولیت 100 فی صد ہے۔ 2002ء اور 2003ء میں بھی ہم کوئی ذیادہ آگے نہیں بڑھ سکے ۔ اس لحاظ سے ہم لوگ اپنے ہدف سے بہت پیچھے ہیں۔اس لیے اگر ہم دور حاضر میں اپنے ملک کی ترقی اور بقاء چاہتے ہیں تو ہمیں تو تعلیم کو عام کرنا ہو گا اور نہ صرف پرائمری سطع پر بلکہ ہمیں  پرائمری سطع سے   لے کر اعلیٰ درجے کی تعلیم تک جس جگہ بھی جو بھی کمی ہے اس کو دور کرنا ہو گا اسی میں ہمارے ملک کی ترقی کا راز ہے۔



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160