گداگری ایک معاشرتی ناسور

Posted on at


آج گداگری ایک مجبوری اور معذوری نہیں بلکہ ایک ایسی تنظیم ہے جو مہذب معاشرے کے جسم پر برص کا داغ ہے۔ اور ہر باشعور حکومت کو اس کی طرف توجہ دینی چاہیے اور اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ کوئی قوم بھی ترقی یافتہ مہذب نا شعور اور با غیرت نہیں کہلا سکتی جب تک اس کے افراد عزت نفس کی دولت سے مالا مال نہ ہوں۔ جس معاشرے میں ہٹے کٹے انسان گداگری کے روپ میں جرائم کے متکب ہو رہے ہوں۔ جہاں انسان اپنے اعلیٰ و اشرف مقام سے نا آشنا ہو اور غیرت بال کھولے ماتم کناں ہو۔ وہاں ارتقاء کے تقاضے اور نشو و بلوغ کے سلسلے دم توڑ دیا کرتے ہیں کیونکہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو خودار ہوتی ہیں اور بھیک کے لقمے کے بجائے فاقے کو ترجیح دیتی ہیں۔ب

آج کے بھکاری کو دیکھ کر دل کے آ نگینے کو ٹھیس نہیں لگتی بلکہ دل میں تنفر سا ابھرتا ہے صرف اس لئے کہ آج کا بھکاری ایک مجبور انسان نہیں بلکہ وہ ایک پیشہ ور عیار ہے۔ اور اس کے پاس آج کے درمیانے طبقے کے سفید پوش سے کہیں زیادہ روپے ہیں جو بینک بیلنس رکھتا ہے اور علاقے کے ٹھیکیدار کو باقاعدہ کمیشن ادا کرتا ہے۔ جو مضبوط توانا ہونے کے باوجود محنت سے دور بھاگتا ہے۔ وہ گداگری کی آڑ میں ہوس ناک نگاہوں کو تسکین پہنچاتا ہے۔ بچوں کو اغوا کرتا ، امیر گھروں کو تاڑتا اور شب کی تاریکیوں میں قفل توڑتا ہے۔

گداگری ایک لعنت ہے جسے بہر کیف ختم ہونا چاہیے۔ اس کے لئے سخت قوانین کی ضرورت ہے ، اگر اس ایک لعنت کو ختم کردیا جائے تو اس سے پھوٹنے والی بہت سی برائیاں خود بخود دم توڑدیں گی۔ معاشی ضروریات ہر ایک کے ساتھ ہیں پیٹ کے تقاضوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو شکم کی ضروریات کو محنت مزدوری سے پورا کرتے ہیں۔ غریب ہونا جرم نہیں۔ اپنے آپ کو دوسروں کا محتاج بنانا جرم ہے۔ ہاتھ پاؤں کی توانائی کے باوجود لولا لنگڑا بننا قبیہ ہے۔ غریب ، غیور ہو تو ہو ایک ایسی تلوار ہے جس کی کاٹ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔

یہ بھیک مانگنے والے ایک تنظیم کے ساتھ کام کرتے ہیں باقا عدہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور ان کے پس پردہ ایک کنٹرولنگ باڈی ہوتی ہے۔ ان کا لباس ، ان کا انداز، ان کا شعار اور ان کے لبوں سے پھسلنے والے بے ساختہ جملے ایک مسلسل تربیت اور پیم ریاضت کا پتہ دیتے ہیں۔ یہ تنظیم انسانی نفسیات کی ماہر ہے۔ اپنے فن میں کامل ہے اور لوگوں کی مزاج شناس اور نبض آشنا ہوتی ہے۔ اس تنظیم کے کرتا دھرتا اپنے کارندوں کی عمر ، کیفیت ، صلاحیت اور جسمانی سا خت کے مطابق انہیں فرائض سونپتے ہیں۔ بعض بھلے چنگے بچوں کو اغواہ کرکے ان کے اعضاء کو توڑ مروڑ کر انہیں اپاہحج بنادیا جاتا ہے۔ بعض دیکتھی آنکھوں کو تاریک بنادیا جاتا ہے اور انہیں ایسے جملے رٹائے جاتے ہیں جو سادہ دل سامعین کے جذبہ شفقت کو ابھارتے ہیں اور گداگری کے بعض حربے اور انداز اس قدر جدید اور سا ئنٹیفک ہوتے ہیں کہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160