روح کی فنا و بقا اور اس کے حادث و قدیم ہونے کا مسئلہ بھی قدیم فلاسفہ میں زیر بحث رہا ہے حالانکہ قرآن پاک میں واضح طور پر کہہ دیا گیا تھا ۔
.’’.. یعنی اے پیغمبر آپ سے روح کے بارے میں لوگ پوچھتے ہیں تو آپ فرما دیجئے کہ روح میرے رب کے حکم میں سے ہے۔‘
پھر بھی بعض لوگوں نے اس کی تحقیق کو ضروری سمجھا اور اسی قسم کی بحثیں جن کا عملی زندگی سے تعلق نہ تھا بعد میں زوال کا باعث ثابت ہوئیں۔ اقبالؔ چونکہ ملت اسلامیہ کی نشاط ثانیہ کے علم بردار تھے اس لئے وہ ان کلامی بحثوں کی بجائے ان پہلوؤں پر زور دیتے ہیں جن کا تعلق حرکت عمل اور ترقی سے ہے۔ اقبالؔ نے ارمغان حجاز کی مشہور نظم’’ ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘ میں اپنے مدعا کی خوب وضاحت کی ہے۔ اقبالؔ کے نزدیک تمام حیات و کائنات توحید کا مظہر ہے اس کی ماہیت نہ مادی ہے نہ نفسی ۔ اس کی کن حیاتِ ابدی ہے جو خلاق اور ارتقا پوش ہے۔ مادہ اور نفس حیات کے مظاہر ہیں۔ مادی عالم خود حیات سرمدی کی پیداوار ہے ۔ مادی عالم کی اپنی کوئی مستقل حقیقت نہیں۔ وہ فقط ان معنوں میں حقیقی ہے کہ وہ زندگی کا ایک مظہر ہے ۔ وہ باطل نہیں بلکہ حق کا ایک پہلو ہے۔ قرآن میں نفس اور روح کے مابین کوئی تضاد دکھائی نہیں دیتا۔ اقبالؔ نے بھی قرآنِ مجید کی روشنی میں یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ محض خالق ہی نہیں بلکہ عامل بھی ہے ۔ اور روح محض مخلوق ہی نہیں ، بلکہ مامور بھی ہے ۔ روح کو امرِ ربی قرارد ینے سے اقبالؔ نے یہ استدلال کیا ہے کہ روح کی فطرت قائم بالامر ہے ۔ ظاہرہے کہ بغیر کسی غایت الامر کے روح کا محض DIRECTIVE ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔اقبالؔ کے نزدیک مادہ اور روح دونوں ایک ہی مختلف الجنس حقیقت ہیں اور ان کی قدرِ مشترک جوہری واقعات کا ایک ایسا تسلسل ہے جس میں ماضی حال اور مستقبل کا کوئی حقیقی امتیاز باقی نہیں رہتا ۔ اقبال ؔ مغربی فلسفے کے برعکس سائنسی تجربے کے حق میں ہیں اور مادے کو بھی ایک حقیقت تسلیم کرتے ہیں مگر وہ سائنس زدگی کے مخالف ہیں جو مادی اقدار کو مادی اور روحانی قدروں پر غالب دیکھنا چاہتی ہے۔سائنس کی وجہ سے مغربی ذہن ثنویت پسند یا تفریق پسند ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ کلیت یا حقیقت مطلقہ یا لا متناہیت کا احاطہ کرنے سے قاصر تھا۔ اسی ثنویت کی وجہ سے کلیسا اور ریاست کو مارٹن لوتھر نے علیٰحدہ علیٰحدہ کر دیا تھا۔