پھول بچے اور تشدد

Posted on at


 

ہم روز اخباروں میں پڑھتے ہیں کہ استاد نے مار مار کر طالب علم کی چمڑی ادھیڑ دی. فلاں جگہ شاگرد استاد کے ہاتھوں ہسپتال پھنچ گیا. ہم ایسی خبریں سن کر انھیں نظر انداز کر دیتے ہیں، زیادہ سے زیادہ تبصرہ یہ ہی کرتے ہیں کہ آج کل کے بچے مار  کے بغیر سیدھے نہیں ہوتے. زیادہ  تابعدار لوگ تو یہ بھی بول دیتے ہے کہ استاد کا درجہ باپ کے برابر ہوتا ہے . استاد نےمارا  ہے ٹھیک ہی مارا ہو گا. 

سکول کی سطح تک مار پیٹ اب ایک معمول کا درجہ اختیار کر گی ہے، عام تاثر ہے کہ  علاقے میں اگر پرائیویٹ سکول کھل جائے تو مار پیٹ کا سلسلہ روک جائے گا، اور بھری فیسوں کی وجہ سے استاد مار پیٹ سے گریز کرے گے. اور نجی اداروں میں بچوں کو مار پیٹ کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا، مگر ایسا نہیں ہو سکا ان نام نہاد تعلیمی اداروں میں نہ تجربہ کار استاد ان پھولوں پے ایسے ظلم ڈھاتے ہیں کہ توبہ

کیا تشدد کے علاوہ ہمارے پاس اور کوئی طریقہ نہیں جس کے ذریعے بچوں کو سدھارا جائے ان کی اصلاح کی جا سکے. کچھ لوگ مار پیٹ کو ایک معمول کا عمل سمج کر اس سے اس طرح آنکھیں چرا دیتے ہے کہ ان کی نفسیات پر شک ہوتا ہے کہ آیا یہ لوگ ٹھیک ہے یا پاگل. جدید تحقیق نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ  چھوٹے بچوں کا شعور ، احساس اور ادراک، بڑوں سے زیادہ تیز ہوتا ہے،  وہ پیار محبت کی بولی سمجھتے ہیں نہ کہ مار پیٹ کی. ان بچوں پی ظلم بلکل ایسے ہیں جیسے ایک کوڑے کاغذ کو بغیر استعمال کے توڑ مروڑ کے پھینک دینا. کیا ہم مار پیٹ سے انھیں سدھار رہے ہے یا پھر ہم ان کی تمام تر صلاحتوں کو ختم کر رہے ہے؟



About the author

160