تعلیم ہی حل ہے۔۔

Posted on at


 پاکستان تعلیم کے امتحان میں لگاتار فیل ہوتا رہا ہے۔ اتنا بڑا ہو گیا پر ابھی تک اسے ٹھیک سے پڑھنا لکھنا بھی نہیں آیا۔ آخر مسئلہ کیا ہے؟ پاکستان کو اگر گنتی آتی ہے تو بتائے کہ کتنی بار قومی سطح پر پالیسیاں بنائی گئیں۔ کتنی بار سمجھدار اور درد مند مائرین سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے تحقیق و تفتیش اور اعدادوشمار کی بنیاد پر لکھے جانے والے مقابلے پیش کئے۔ کتنی بار غیرملکی اتالیق ٹیوشن دینے آئے۔ کلاس روم میں ہلچل مچی رہی۔ بستوں کا وزن بھی بڑھ گیا اور غیر حاضر استاد کی تنخواہ بھی۔۔۔۔۔۔۔ امتحان میں نقل کرنے کا بندوبست بھی کیا گیا۔ یہ سب ہوا لیکن اگلی کلاس میں یا یوں کہئے کہ ایک نئے دور میں داخل ہونے کی نوبت نہیں آئی۔

              

 

اب پھر، ایک نئے عزم کے ساتھ، تعلیم کی ضرورت اور اس کی اہمیت کا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔ اس طرح "ذرا سوچئے" کی بھرپور تحریک کے زریعے ملک کو اور اس کے حکمرانوں کو جگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بنیادی باتوں کو دھرانے کے ساتھ ساتھ، نئے تجزیوں اور نئے تجربات کا آغاز کیا گیا ہے۔ تعلیم کیسے فرد کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں لاسکتی ہے، اس کی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں۔ یہ سمجھنے کی کوشش جاری ہے کہ اب تک کی کاوشیں کیوں لاحاصل رہیں۔ عوام کے سامنے تعلیم کی موجودہ صورتحال کی تصویر بھی پیش کی جا رہی ہے اور اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کے منصوبے بھی بن رہے ہیں۔

                            

 

تو اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ مخلص اور منظم کوشش بارآور ثابت ہوسکتی ہے؟ کیا وہ فیصلے جوکئی دہائیوں سے ٹالے جا رہے ہیں اب ہنگامے بنیادوں پر عمل کا روپ دھار سکتے ہیں؟ ظاہر ہے ایسے تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنے کیلئے ہمیں اپنے حکمرانوں سے رجوع کرنا پڑھے گا اور یہ وہ مرحلہ ہے کہ عوام اپنے سیاسی شعور کے زریعے اپنی ترجیعات کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور تعلیم یقینأان ترجیحات میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ گویا پاکستان اس لمحے تاریخ کے ایک اہم مقام پر کھڑا ہے۔ یہ حقیقت ھیکہ تعلیم کی گتھی سلجھائے بغیر ترقی اور خوشحالی کے راستے پر آگے بڑھنا ناممکن ہے۔

                      

 

ہم حق اور باطل کے ایک ایسے معرکے کو سمجھ ہی نہ پائے کہ جو پاکستان میں تعلیم کے فروغ کیلئے ایک حیرت آفریں استعارہ بن سکتا تھا۔ میرا اشارہ ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے قاتلانہ حملے اور اس کی ہمہ گیر معنویت کی طرف ہے۔ اگر آپ اس واقعہ پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں اور اس پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں جو اس میں مضر ہےتو پاکستان اور کے پیچیدہ رشتے کے کئی پہلو سمجھ میں آنے لگیں کے۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ پلالہ کی کہانی نے کیسے پورے ملک اور دنیا کو متاثر کیا ہے۔ اور اس پر قاتلانی حملے کی کہانی ان خچرات کی علامت بھی ہے جو پاکستان کی بقاء کو لاحق ہیں۔

              

پاکستان میں لڑکیوں کیلئے تعلیم اور آزادی کا ہونا یا نہ ہونا پاکستان کے ہونے یا نہ ہونے سے مشروط ہے۔                          پتہ نہیں وہ کونسا حادثہ ہو گا جو ہمارے زہنوں کو بیدار کرے گا اور اس میں اپنے ملک اور معاشرے کو آنکھیں کھول کر دیکھنے کی ہمت پیدا کرے گا۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم ہمیں اپنی موجودہ فکری اور تعلیمی پسماندگی کا ہی احساس ہو جائے۔

                              

 

لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں بنگلہ دیش سے پاکستان کا موازنہ حیرت انگیز انکشافات کا سبب بن سکتا ہے۔ ہماری طرح وہ بھی مسلمان ملک ہے۔ سات سال سے لے کر پندرہ سال کی لڑکیاں جو کبھی اسکول نہیں گئیں ان کی تعداد پاکستان میں 60 فیصد، بھارت میں 30 فیصد اور بنگلہ دیش میں صرف 6 فیصد ہے۔



About the author

qamar-shahzad

my name is qamar shahzad, and i m blogger at filamannax

Subscribe 0
160