دنیا میں کتابیں تو ان گنت اور بے شمار ہیں پھر بھی ہر آدمی اپنے ذوق کے مطابق کسی نہ کسی کتاب سے انس رکھتا ہے انس ہی نہیں بلکہ عشق۔ دیہات میں جاؤ ہر شخص خواندہ خواندہ ہے یا نا خواندہ ، ہیر وارث شاہ پسندیدہ نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ انگریزی خواں طبقہ شیکپئر کے ڈراموں پر جان دیتا ہے۔ فارسی خواں حضرات شیخ سعدی کی گلستان اور بوستان کو حرز جان بنائے نظر آتے ہیں۔ صو فیاء کرام مثنوی مولانا روم کے دلدادہ دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی کلام اقبالؒ کا شیدائی ہے تو کوئی غالب کے کلام پرمرتا ہے۔ غرض کوئی کہاں تک کہے۔ پسند اپنی اپنی خیال اپنا اپنا۔
لیکن مجھے تو قرآن حکیم سے عشق ہے۔ کتب ارضی کے مصنف انسان ہیں اور انسان ہی کیا جو غلطی نہ کرے۔ انسانوں کی لکھی ہوئی کتابیں کسی صورت میں بھی جامع اور لاریب نہیں ہو سکتیں۔ قرآن حکیمکا مصنف خدا ہے اور خدا وہ ذات ہے جس کا ک
وئی
شریک نہیں۔ جس کا کوئی جواب نہیں۔ یعنی لاجواب اور جس کا مقام عرش ہے ، جو سب سے ارفع و اعلیٰ ہے۔ پس جاب مصنف لاجواب ہے تو پھر اس کی
تصنیف کیوں نہ لاجواب ہوگی۔ جب مصنف لاشریک ہے تو کتاب کیوں نہ لا شریک ہو گی۔ جب مصنف کا مقام عرش ہے اور اس کی ذات سب سے ارفع وا علیٰ ہے تو اس کی تصنیف کیوں نہ سب سے ارفع اور اعلیٰ ہوگی۔
قرآن حکیم وہ کتاب ہے جو ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ یہ وہ سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ یہ وہ خزانہ ہے جس کے سامنے دنیا بھر کے خزانے ہیچ ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جو اخلاق کا سر چشمہ ہے۔ جس سے ہزاروں نہیں بلکہ کروڑوں خلق کی ندیاں بہہ نکلیں۔ یہ وہ نور ہے جس نے جہالت کی تاریکیوں کو روشنی میں تبدیل کردیا۔ یہ وہ ہدایت ہے جو راہ بھٹکے کو صراط مستقیم پر لے آتی ہے۔ یہ وہ شمع ہے۔ جس کی روشنی میں ہر مسافر تاریکی کی منزل کو بخیر و عافیت طے کر سکتا ہے۔ یہ ایسا کلام ہے کہ ادھر کان میں پڑا ادھر دل میں اتر گیا۔ فصاحت اس کی لونڈی ، بلاغت اس کی چیلی ہے۔ تحریر اس پر قربان ، تقریر اس پر فدا ، زمین اس میں زماں اس میں۔ غرض کیا بتاؤں۔
خدا اس کا مصنف ، حضرت محمد ﷺ اس کے ناشر اور مفسر۔ جبریل امین اس کا حامل اور لوح محفوظ اس کا مطبع پھر کیوں نہ بے نظیر ہو۔ کیوں کر بے مثل نہ ہو۔ قرآن حکیم یہ ایک ایسی کتاب ہے جس نے کالے ، گورے ، آقا اور غلام ، بادشاہ اور رعایا ، عرب اور عجمی کی تمیز اڑادی اور تفریق ختم کردی۔
قرآن پاک ایک معجزہ ہے۔ صحرائے عرب کے وحشی ، خونخواروں ، جا ہلوں ، بادہ نوشوں ، قمار بازوں اور مشرکوں نے جب اس کا مطالعہ کیا اور اس پر عمل پیرا ہوئے تو جہالت کی تاریکیوں سے نکل کر نور ایمان کی روح پرور وادیوں میں خراماں نظر آئے۔ تخت کیانی نے ان کے قدم چومے۔ ایران کے آتش کدہ سرد پڑگئے۔ مہذب دنیا ان کے قدموں میں گری اور از سر نو ان سے تہذیب سیکھی۔ ہر ذی روح موت کے نام سے ڈرتا ہے۔ خوف کھاتا ہے۔ ترساں و لرزاں دکھائی دیتا ہے۔ لیکن قرآن حکیم کا علم موت سے قطعاً خوف نہیں کھاتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ موت اٹل ہے اور اسکا وقت مقرر ہے۔ دنیا بھر کی کتابیں تباہ ہوسکتی ہیں ، برباد ہوسکتی ہیں ، راکھ کا ڈھیر بن سکتی ہیں۔ لیکن قرآن پاک کے ایک نہیں دو نہیں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں چلتے پھرتے اور منہ بولتے نسخے آپ کو ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میری محبوب کتاب ہے۔