اُ لغ بیگ ۔ عالم حکمران

Posted on at


اُ لغ بیگ وسطی ایشیا کے عظیم ماہر فلکیات اور ریاضی دان تھے۔ ان کا پورا نام محمد ترغائی جبکہ اُلغ بیگ ان کا لقب تھا ، جس کا مطلب ہے شہزادہ اعظم۔ وہ ۲۲ مارچ ۱۳۹۴ء کو ایران کے شہر سلطانیہ میں پیدا ہوئے۔


اُلغ بیگ نے اپنے دادا تیمور کے دربار میں پرورش پائی۔ لڑکپن میں انھیں مشرق وسطی اور ہندوستان میں اپنے دادا کی فوجی مہمات کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا۔ اس دوران میں وہ تیموری دربار میں موجود علما سے دین ہو دنیا کے علوم سیکھتے رہے۔ تاہم انھیں فلکیات سے خصوصی دل چسپی تھی۔ دادا کے انتقال کے بعد جب ان کے والد شاہ رخ نے تخت سنبھالا تو انھوں نے سمر قند ، موجودہ ازبکستان میں رہائش اختیار کی۔ سمر قند امیر تیمور کا دارالحکومت تھا ، جب شاہ رخ نے اپنا دارالحکومت ہرات ، افغانستان منتقل کیا تو انھیں سمر قند کا گورنر بنا دیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر ۱۶ سال تھی۔ ۱۴۱۱ء میں وہ ماوراءالنہر کے حکمران بنا دیے گئے۔


اُلغ بیگ کا وطن ماوراء النہر جو آمودریا اور سیر دریا کے درمیان واقع ہے، تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ یونانی سکندراعظم کے ساتھ یہاں آئے تو انھوں نے آمودریا جیحون کے یونانی نام اوکسیس کی نسبت سے اس علاقے کو ٹرانسوکسیانہ کا نام دیا جسے عربوں نے ماوراء النہر: نہر پار: کہا۔ اس میں نہر سے مراد دوریائے آمو ہے۔ ماوراء النہر میں ان دونوں ازبکستان کے علاوہ قازقستان اور ترکمانستان کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ سمر قند ، بخارا ، اندیجان ، فرغانہ ، ترمذ ، تاشقند ، قدیم شاش اس کے مشہور شہر ہیں۔ ماضی میں ماوراء النہر اور اس کے اردگرد کے وسیع تر علاقے کو ترکستان کہا جاتا تھا۔


الغ بیگ کا دادا امیر تیمور جسے لنگڑا ہونے کے با عث تیمور لنگ کہا جاتا ہے، مغل سلطنت کا اصل بانی تھا۔ اگرچہ وہ برلاس ترک قبیلے سے تعلق رکھتا تھا ، تاہم چونکہ اس نے ۱۳۶۹ء میں سمر قند کے منگول ، مغل بادشاہ سے حکومت حاصل کی ، اس لیے اس نے خود کو منگولوں سے منسوب کر لیا۔ یوں امیر تیمور کی پانچویں نسل میں ظہیر الدین بابر بھی مغل ٹھرا جس نے ۱۵۰۴ء میں کابل میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔ پانی پت کی پہلی جنگ ۱۵۲۶ء میں بابر کی فتح کے بعد دہلی سلطنت مغلیہ کا مرکز بن گیا۔


اُلغ بیگ نے ۱۴۲۰ء میں سمر قند میں ایک مدرسہ اُلغ بیگ کی بنیاد رکھی۔ اس مدرسے میں علم فلکیات کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ انھوں نے اس مدرسے میں پڑھانے کے لیئے اس دور کے نام ور سائنس دان منتخب کیئے اور ان کا امتحان خود اُلغ بیگ نے لیا۔ جلد ہی یہ مدرسہ وسطی ایشیا کی عظیم درس گاہ اور تحقیقی مقام بن گیا۔


اُلغ بیگ کے مدرسے کے اساتذہ میں اُلغ بیگ کے علاوہ قاضی زادہ الروی اور غیاث الدین الکاشی جیسے عظیم سائنس دان شامل تھے۔ اُلغ بیگ کے مدرسے نے بہت سے نام ور سائنس دان پیدا کیئے۔ ان میں سب سے مشہور الکاشی تھے جو تعلیم سے فارغ ہو کر یہیں استاد مقرر ہوئے۔


اُلغ پیگ علم اور محقق تھے لہذا وہ انتظامی امور پر زیادہ توجہ نہ دےسکے۔ انھیں کئی جنگوں میں شکست ہوئی۔ ۱۴۴۸ء میں اُلغ بیگ نے ہرات پر حملہ کرکے وہاں قبضہ کرلیا۔ ایک سال کے بعد ان کے سب سے بڑے بیٹے عبدالطیف نے ان کے خلاف بغاوت کردی اور انھیں قید میں قتل کر کے ایک عام قبرستان میں دفنادیا گیا۔ ۱۴۵۰ء میں ان کے ایک رشتے دار عبد اللہ نے تیموری سلطنت کی باگ دوڑ سنبھالی تو اس نے اُلغ بیگ کو دوبارہ اعزاز کے ساتھ امیر تیمور کے مقبرے میں دفن کیا۔


اُلغ بیگ نے سمر قند میں ایک رصد گاہ اوبزرویٹری بنوائی۔ ۱۴۲۰ء کے بعد تعمیر ہونے والی اس رصد گاہ کو محقیقین نے اسلام دنیا کی سب سے شان دار رصدگاہ قرار دیا ہے اور یہ وسطی ایشیا کی سب سے بڑی رصد گاہ تھی۔


یہ رصد گاہ ۱۴۲۹ء میں مکمل ہوئی۔ اس کو باغیوں نے ۱۴۴۹ء میں تباہ کردیا تھا۔ یہ رصد گاہ ۱۹۰۸ء میں ایک روسی ماہر آثار قدیمہ وائینکٹن نے دریافت کی۔ کھدائی کے دوران میں وائینکٹن نے ایک اہم فلکیاتی آلہ بھی دریافت کیا۔ یہ ایک بڑی محراب کی شکل کا تھا جس کی مدد سے دن کو نا پا جاتا تھا۔ ایک میٹر چوڑی خندق بھی دریافت ہوئی جو ایک پہاڑی پر کھودی گئی تھی اور اس میں ہو آلہ رکھا جاتا تھا۔


آج اس کی جگہ گولائی کی شکل میں ایک نشان موجود ہے۔ نیچے ایک دروازہ نہ خانے میں جاتا ہے۔ اس تہ خانے میں پیمائش کرنے والے آلے سیکسٹینٹ کا نچلا حصہ تھا جبکہ اس کا بالائی حصہ چھت کے اوپر تھا۔ یہ آلہ ۱۱ میٹر لمبا تھا۔ اس کا زیر زمین حصہ اگر باہر نکالا جاتا تو اس کی لمبائی تین منزلہ عمارت سے زیادہ بنتی۔ اس کو زیر زمین اس لیئے رکھا گیا تھا کہ یہ زلزلوں سے محفوظ رہے۔ اس رصد گاہ سے سورج کے مدار ، اس کے خط استوا کی طرف جھکاؤ اور سال کی لمبائی کو ناپا گیاتھا۔ اس کے علاوہ یہاں سے ستاروں اور سیاروں کا بھی مطالعہ کیا گیا۔


اُلغ بیگ نے بہت سے تحقیقات اور مشاہدات میں خود حصہ لیا۔ خاص طور پر انھوں نے نظام شمسی کے پانچ سیاروں عطارد ، زہرہ ، مریخ ، مشتری اور زحل کی سالانہ حرکات کا مطالعہ کیا۔ ان کے مشاہدات اور اس کے نتیجے میں دیے جانے والے نتائج حیران کن حد تک جدید نتائج سے ملتے جلتے ہیں



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160