قائدین کی کمی

Posted on at



مملکت پاکستان کو قدرت نے ہر وسائل سے نوازہ ہے  اور تقریباً ہر قدرتی  چیز سے مالامال کیا ہوا ہے۔ ملک میں پانی کی فراوانی سے کئ گنا ذیادہ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے اور زرعی صلاحیت سے مالا مال دھرتی کے لئے معمولی بات ہے اور نصف دنیا کی بھوک مٹائی جا سکتی ہے۔  کمی ہے تو اُن اخلاقی قدروں کی جن کی وجہ سے قوموں کا وقار بنتا ہے۔ قوموں کی بنیاد سچ ، دیانت ، شجاعت پر رکھی جاتی ہے لیکن جھوٹ کی ملاوٹ نے ہمارے معاشرے میں اور اس معاشرے کے قائدین کے ہر عمل میں ساری اخلاقی حقیقتوں کو دھندلا کر دیا ہے۔  ملک میں جس شعبہ کو دیکھا جائے ان گنت مسائل کی امجگاہ بنی ہوئی ہے۔ سی این جی اسٹیشوں پر گاڑی کی لمبی قطارے، بجلی کی بےوقت بندش  اور بحران سے نمٹنے کے لئے کسی جامع پروگرام کا نہ ہونا، لاء اینڈ آرڈر کی اور ٹارگٹ کلنگ جیسے مسائل پر ہمشہ قائدین کی طرف سے پردہ پوشی اور کثرت سے جھوٹ بولا جاتا ہے۔



 


اس بات سے انحراف ناممکن ہے جن اسلام کے فرزندوں کے دور  میں ملت اسلامیہ پھلی پھولی وہ صداقت و شجاعت اور دیانت جیسی عظیم اخلاقی اقدار کے  مالک تھے۔  ان لوگوں کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کے احکامات کا تابع تھا۔ اور ان کی سوچ میں ملت کے لئے بھلائی اور سچائی تھی اور ملت اسلامیہ کا فروغ تھا۔  ان کے اعمال میں عاجزی اور انکساری تھی اور اللہ کے حکم کی تابعداری تھی۔


اس کے برعکس دیکھا جائے تو دور حاضر کا ہمارا قائد سیاست اور جھوٹ کو ہی اپنی فتح گرناتا ہے۔  ملکی خزانے کو لوٹ مار کے بعد بیرون ملکی منتقلی کرتا ہے اور پھر استحقاق اور صوابدید کا سہارا لیتا ہے۔ آج ہم ترقی یافتہ ملکوں میں اسلامی اصولوں کی جھلک دیکھتے ہیں چائے وہ بچوں ، عورتوں، بوڑھوں، ہمساہہ کے حقوق ہوں یا پھر قیدیوں کے اور المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکرانوں نے ان سارے سنہری اصولوں اور تمیزوں کو پس پشت ڈال دیا ہے اور  دولت کی چمک کی تقلید میں اندھے ہو گے ہیں۔



خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضہ اللہ  جن سے قیصر و کسریٰ کے محلات لرزہ و براندم تھے لیکن وہ کسی چھوٹی سی استثنیٰ سے بھی بری نہیں تھے اور ایک عام سا بدو  بھی اپ کا لباس دیکھ کر توہیں آمیز لہجہ میں کہتا ہے۔ "اے عمر: ہمیں ایک چادر ملی ہے اور تم نے دو چادر سے یہ لباس کس طرح بنا دیا۔ "


ہمارے حمکرانوں کو اپنے اسلاف کی ان سنہری باتوں اور اصولوں پر عمل کرنا چاہیے اور تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے۔ اور اقتدار کو اپنے مفادات کی بجائے قوم کی بہتری کے لئے استعمال کرنا چاہئے اور بے شک ہمارا اقتدار ، ہمارا منصب  اور دولت ، طاقت، علم و قلم ہر نعمت اللہ نے اپنے احکامات کی تکمیل کے لئے عنایت کی ہیں۔  اور اس کے بارے میں حساب ضرور ہو گا۔




160