ہماری زندگی اور اسکو درپیش مسائل

Posted on at


لوگ آہستہ آہستہ زندگی کے اہم معاملات اور اہم چیزوں کے بارے میں آگاہئ حاصل کر چکے ہیں۔ آج سے کوئی دو سو سال پہلے لوگ ان چیزوں کے بارے میں نہیں جانتے تھے جن کے بارے میں آج جانتے ہیں۔ مثال کے طور پر پہلے لوگ لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن اب دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح آج کل پاکستان میں بھی لڑکیوں کے لیے بہت سے سکول اور کالج ، اور یونیورسٹیوں میں کثیر تعداد میں لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اور بہت کم ایسے والدیں ہیں جو اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم دینے کی کوشش نہیں کرتے۔ پاکستان میں لڑکیاں لڑکوں کی طرح تعلیم حاصل کر کے تعلیم کے میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں۔

                                                                     

اسی طرح ماضی میں بہت سے لوگ اپنی دولت بڑے بڑے برتنوں میں ڈال کر زمین میں دفن کر دیتے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ اس پیسے سے دوسروں کی کیسے مدد کی جائے؟ لیکن آج کل دولت کے کئی نفع بحش استعمال ہیں جیسے کاروبار، تجارت، یا نئے کارخانوں اور ملوں کے قیام میں سرمایہ کاری کرنا۔ اگر لوگ سرمایہ کاری نہیں کرتے تو وہ اپنی رقم کو بینکوں میں رکھتے ہیں جہاں یہ حفاظت سے رہتی ہے اور ملکی ترقی میں مدد دیتی ہے۔ اس طرح ہم اپنی رقم سے اپنے بہت سے ہم وطنوں کی مدد کر سکتے ہیں کیونکہ نئی صنعتوں اور فیکٹریوں میں لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ اسطرح بہت سے قابل لوگ سامنے آتے ، اور اسی طرح قومی دولت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

                    

اسی طرح ہمارے ملک میں خاندانی منصوبہ بندی کا بھی رجہان بڑھ رہا ہے، جو کہ ایک خوش آیند بات ہے۔ ہم اکثر اپنے اردگرد ایسےبچوں کو دیکھتے ہیں جو صحت مند نہیں ہوتے۔ وہ جسمانی طور پر بہت لاغر ہوتے ہیں۔ وہ گرمی اور سردی میں مناسب طریقے سے ملبوس نہیں ہوتے۔ ہمیں سردیوں میں گرم کپڑوں اور سویٹروں کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن ان بچوں کے پاس ٹھیک طرح کا لباس بھی نہیں ہوتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ گھر میں کمانے والے افراد کی آمدنی گھر کے کل افراد کی بہتر طور پر کفالت نہیں کر سکتی۔ اس وجہ سے گھر کے افراد خاص طور پر بڑتے ہوئے بچے خوراک کی مناسب مقدار اور دوسری بنیادی روزمرہ کے استعمال کی چیزیں حاصل نہیں کر سکتے۔ اسی وجہ سے وہ بچے کمزور اور لاغر دکھائی دیتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ان بچوں کو صحیح خوراک یا لباس کانہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ بہت پہچیدا ہے۔

                                    

چار یا پانچ سال تک عموما بچوں کی ضروریات لباس اور خوراک تک محدود ہوتیں ہیں۔ لیکن اس کے بعد تعلیم کا اہم مرحلہ آتا ہے۔ اس وقت بچے کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کی دیگر ضروریات مثلاً کتابیں، کاپیاں اور صاف کپڑے مہیا کرنے ہو تے ہیں اور اس سے ساتھ ساتھ سکول کی فیس بھی برداشت کرنی ہوتی ہے۔ لیکن اگر گھر کی آمدنی بنیادی ضروریات کے لیے کافی نہیں ہیں تو وہ کتابیں کسطرح خرید سکتے ہیں۔ اسی طرح تعلیم کے ساتھ ساتھ انسانی صحت بھی بہت اہم ہے۔ اگر بچے کو صحیح خوراک نہیں ملتی تو وہ بیمار پڑ سکتا ہے۔ اور اسکے بعد اسے ڈاکٹر کے پاس لیے کر جایا جائے، ڈاکٹر کی فیس ادا کی جائے اور اس کی ادویات خریدیں جائیں۔ یہ سب ایک غریب باپ کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ اسلیے کافی سارے بچے بیمار اور لاغر دکھائی دیتے ہیں۔

                             

اس سب کی وجہ گھر میں افراد کی بڑتی ہوئی تعداد ، اور کم آمدنی ہے۔ جب آمدنی سب افراد میں تقسیم کی جائے تو سب کو بہت کم حصہ ملتا ہے۔ اس لیے نہ وہ بچے اچھی خوراک اور نہ ہی اچھی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ ان حالت میں والدین پریشان ہوتے ہیں، اور بچے بیمار اور کندذہن ہوتے ہیں۔ جہاں تک آمدنی میں آضافے کا تعلق ہے ہمارا معاشرہ ہر محنتی با صلاحیت لوگوں کو مکمل موقع فراہم کر تا ہے۔ بہت سے ایسے افراد بھی موجود ہیں جو بڑی ملوں کے مالک ہیں یا ان کا کامیاب کاروبار ہے ، غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

 

اسکے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے افراد بھی موجود ہیں جو بہت کوشش کے باوجود بھی نوکری حاصل نہیں کر سکتے۔ اسلیے ضروری ہے کہ ہمیں اپنی زمہ داریوں کو پہچانا چاہئے اور متابادل ذرایعے پر عمل کرنا چاہے۔ جہاں تک آبادی کا تعلق ہے پاکستان کی بیشتر آبادی غریب لوگوں پر مشتمل ہے۔ ایک غریب آدمی کو معقول آمدنی کے لیے صبح سے شام تک کام کرنا پڑتا ہے۔ اور گھریولو ذمہداریاں نبھانے کے لیے عورت کو بھی مرد کے ساتھ ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ عورت کو کھانہ پکانے، گھر کی صفائی شوہر اور بچوں کے لیے کپڑے دھونے کی ذمہداری برداشت کرنی پڑتی ہے۔ لیکن ان سب ذمہداریوں میں سے بڑھ کر بچوں کی نگہداشت اور تربیت ہے۔

                       

زیادہ تر مائیں رات بھر اپنی ذمہداریاں پوری کرنے کے لیے جاگتی رہتی ہیں اور آرام سے محروم رہتی ہیں، اس قسم کی ذمہداریاں عورت برداشت نہیں کر سکتی اور بیمار ہو جاتی ہے۔ ان بیماریوں میں ٹی بی اور دوسرے مہلک مرض سر فہرست ہیں۔ کیا ایک مرد یا عورت پر اتنا بوجھ ڈالنا نا انصافی نہیں؟ آبادی میں اضافہ ایک قوم کی معشت کو بری طرح سے متاثر کرتا ہے۔ اسلیے ہمیں ان تمام مسائل کے حل کے لیے کام کرنا ہو گا لوگوں میں اس بات کا احساس دلانا ہو گا کہ ملک کی ترقی کا راز چھوٹے خاندانوں میں ہے۔

                                 

موجودہ دور میں ہم اپنے ملک کے ذرائع اور فی کس آمدنی بڑھانے کی سخت کوشش کر رہے ہیں۔ ملک تیزی سے صنعتی ترقی کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ نئی فیکٹریاں اور کارخانے لگائے جا رہے ہیں۔ اس سب کا مقصد ہمارے میار زندگی بہتر بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ لیکن جس طرح آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے ہمارا خوشحال پاکستان کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ اسلیے نہ صرف انفرادی بلکہ قومی نقطہ نظر سے ضروری ہے کہ ہم آبادی میں اضافے پر نظر رکھیں۔ اسی طرح ہی ایک خوشحال پاکستان بن سکتا ہے۔



About the author

haider-ali-7542

Student of BS Chemistry.

Subscribe 0
160