انسانیت ، محکومیت اور حیوانیت

Posted on at


اگرچہ ہم فلم ایکسن کے پیلٹ فارم سے اپنے آوازوں کو اس طرح نہیں اٹھا سکتے جس طرح دوسرے پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیاز ہیں ، پھر بھی کچھ نہ ہونے سے کچھ نہ کچھ بہتر ہے۔

مارشلاؤ نے ہمارے معاشرے کو تنزلی کی طرف دھکیل دیا ، اور یہ حقیقت ہے۔  فرد واحد کی حکومت آنے کے بعد سب سے پہلا کام اور حکم کا نفاذ ملک میں ایمریجنسی کا فوری نفاز کیا جاتا ہے۔ اور تمام انسانی حقوق کہ بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ اندرون ملک سے کئی سے بھی کوئی بغاوت نظر آئے تو فوری اس کا سر کچل دیا جائے۔

اور تمام حکومتی مشینری کا قبلہ درست رکھنے کے لئے فوجی افسران محکموں میں تعینات کر دئے جاتے ہیں۔

گو کہ مارشل لاء میں عوام کی تمام بنیادی ضرویات زندگی کو ترجیح بنیادوں پر حل کیا جاتا ہے۔ تا کہ عام عوام میں سے کوئی آواز نہ اٹھ سکے۔ اور تمام پبلک جہگوں خصوصاً اڈوں، بازاروں ، منڈیوں پر عوامی جمگٹھوں پر نظر رکھنے کے لئے حکومتی فورس ، ایجنسوں کو متحرک کر دیا جاتا ہے۔

 ان معاشری عادات کی وجہ سے آج ہمارے بنیادی حقوق ہر حکومتی ادارے میں ہمارے سامنے غصب کر دیئے جاتے ہیں اس کی ایک وجہ ہم جان بوجھ کر اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے کیونکہ ہمارے اندر ان معاشری عادات کا فروغ ہے جو مارشلاؤں کے دوروں کے دوران پروان چھڑا۔ ان عادات کے فروغ نے ہمارے اندر کا ضمیر اور احساس ختم کر دیا ہے اور اس نیچ پر پہنچ گئے ہیں جس طرح   جنگل میں ایک خونخوار درندہ دوسرے جانوروں کے غول میں گھس کر ایک کو عیحلدہ کر  کے کھا جاتا ہے اور باقی جانور اس کی موت کا تماشا دیکھتے رہتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ وقتی بلا ہمارے اوپر سے ٹل گئی لیکن اگلے دن پھر کسی اور کا نمبر آجاتا ہے۔ آج ہماری سوچ بھی اس حیوانی سوچ سے کم نہیں ہے اور تماش بین بن کر ، تالیاں بجا کر لوگوں کو کٹا مرتا دیکھتے ہیں لیکن آواز نہیں اٹھا سکتے۔

ضرورت اس امر کی ہے ہم سب کو خصوصاً پڑھے لکھے افراد کو، اور وہ لوگ جو کسی نہ کسی طریقے سے میڈیا کا استعمال کرتے ہیں اپنے تحریروں سے عوام کے اندر شعور دیلائے اور عوام کے حقوق ان کو دلائے اور جو لوگ حکومتی اداروں میں بیٹھ پر ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں ان کے خلاف یکجان  ہو کر بلند آواز اٹھائے،  چائے وہ کوئی پیلٹ فارم ہو یا فورم، اگر عدالتیں ایسے لوگوں کو کٹہرے میں نہیں لاسکتی تو پھر انہیں عوامی کٹہرے میں لائے۔ ایسا ہی انقلاب ان لوگوں کو نشان عبرت بنا سکتا ہے اور یہی حب الوطنی کا تقاضا ہے۔



160