پاکستان میں غریب انسان، غریب تر ہو رہا ہے، کیوں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تعلیم کی کمی اور سسٹم میں خرابی ایک بڑی وجہ۔

Posted on at


پاکستان میں اچھے اور پیارے لوگ رہتے ہیں ،معصوم اور سادہ،بقول غالب آبلوں پر حنا باندھنے والے۔ ہربات کی توقع اور امید حکومت سے باندھتے ہیں ظالم و بے درد مگر غریب معاشرے سے نیکیاں اور اچھائیاں مانگتے ہیں۔مثلاََ کسی جگہ ایک آدمی اپنی انڈے دینے والی مرغی کے تعاقب میں کنویں میں چھلانگ لگاتا ہے۔اس کے ہاتھ پاؤں ٹوٹتے ہیں تو ہسپتال میں جانا پڑتا ہے۔علاج معالجے کا یارا نہیں رکھتا۔


وفاقی،صوبائی،اور ضلعی حکومت کو دہائیاں دیتا ہے۔حکمرانوں کو گالیاں دیتا ہے اور کالم نگاروں کو خط لکھتاہے کہ سب مل کر اس کی مدد کریں۔



حضور،کالم نگاروں کو لکھنے سے کیا حضرت عمر  ؓ  کا زمانہ لوٹ آئے گا اور فرات کے کنارے کتا بھوکا مرے تو خلیفہ وقت کی نیند اُڑ جائے گی۔نہیں بھائی ایسا نہیں ہو گا۔یہاں مرض اور مریض زیادہ اور سہولتیں کم اور گراں ہیں یہاں حکمران اپنے اللوں تللوں سے فارغ نہیں ہوتے کسی کی کیا مدد کریں گے۔پھر کالم نگاروں کے کالم لکھنے سے کیا ہوتا ہے؟ نہ راتوں رات غریب ملک یورپ و امریکہ و سکینڈے نیو یا بن سکتا ہے



کہ ہر شہری کا مہد سے لہد تک خیال بھی رکھا جائے اور علاج بھی ہوتا رہے۔یہ ان معاشروں کی بات ہے جہاں سرمایہ دار پورا ٹیکس دیتے ہیں اور حکومت دیانت و امانت سے وہ رقم عوام کی بہبود پر خرچ کرتی ہے۔جہاں پالیسیاں عوام کے مفاد میں بنتی ہیں امریکہ جیسے سرمایا دار ملک میں بھی علاج فری نہیں ہے اس کے لیے میڈیکل انشورنس کروانی پڑتی ہے۔بغیر انشورنس کے کم ہی کسی کا علاج ہوتا ہے،ہاں کسی کو بے علاج مرنے نہیں دیا جاتا۔ ان معاشروں نے علم و سائنس و ٹیکنالوجی کی طاقتوں سے صدیوں کے سفر میں اپنے مسائل حل کئے ہیں۔سسٹم بنائے ہیں اور ان پر ایمانداری سے عمل کیا ہے۔ہمارے ہاں کیا ہے؟



سرکاری ہسپتالوں کی حالت جا کے دیکھیں مریض کی حالت سب سے خراب ہوتی ہے۔پرائیویٹ علاج گھروں کو جا کر ڈبگری گارڈن میں دیکھیں تو مالداروں کے لیے عشرت کدے اور غریب غربا کے لیے ماتم گڑھ قصاب خانے،یہ غریب پاکستان ہے۔یہاں لاکھوں مریض صبر و شکر کی پھکی پھانک کر چپ چاپ مر جاتے ہیں۔ کسی کو بتاتے تک نہیں اورمتبادل سستے طریقہ ہائے علاج کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں۔ فقیروں سیانوں سے دعائیں کراتے اورتعویز لکھواتے ہیں۔ اور اکیلے میں ختم پڑھتے اور تسبیاں رولتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ جان لیوا مرض آ لپٹا ہے۔



سرکاری ہسپتالوں میں جائیں تو سوائے دکھ درد،مایوسی اور ٹھڈے دھکوں کے کچھ نہ پائیں۔پرائیویٹ علاج تو گھروں کی طرف تو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ان میں جائیں تو گھر،کھیت،بھینس اور گدھا بیچ کر دو بار جائیں اور سب کچھ لٹا کر تھوڑی بہت صحت خرید لائیں۔یہ معاشرہ سماج اور نظام اتنی جلدی سے تبدیل ہونے والا نہیں۔یہ کام الل ٹپ طریقے پر نہیں  ہوں گے،اس کے لیے ایک نظام بنے گا۔جس میں سب کو اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ ملک میں لاکھوں مریض ہر گاؤں،گلی اور کوچے میں پڑے کراہ رہے ہیں۔پاکستان میں گردہ فیل مریضوں کی تعداد آٹھ دس لاکھ سے کم نہ ہو گی۔اور علاج کی سہولت ایک لاکھ کے لیے بھی نہیں۔یہ علاج انتہائی مہنگا ہے اورزندگی کی آخری سانس تک چلانا ہے۔یا پھر مریض نے مر جانا ہے۔تا آنکہ کہیں سے نیا گردہ نہ مل جائے۔نیا گردہ بھی کسی غریب شخص کے جسم سے قیمتاََ خرید کر نکلوایا جائے گا۔کہ مصنوعی گردے ابھی ایجاد نہیں ہوئے۔یہ کام اور سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔


بس اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ اے میرے رب،اس ناگہانی مرض سے بچائے رکھ،جسے لگ گیا وہ جیتے جی مر گیا۔مالدار مریض بھی آرام سے نہیں رہتا غریب کا تو سکٹ خانہ خراب ہے۔ حکومت سے کوئی توقع نہ رکھیں، معاشرہ بے درد ہے ملک بے نظام ہے اور علاج مہنگا ہے۔بس موت سستی ہے مگر وہ بھی اتنی سستی نہیں ہے تدفین کے لیے قبرستان نہیں۔کفن دفن اور چالیس دنوں کی دعاؤں خیراتوں کے لیے رقم نہیں۔کہتے ہیں فی کس آمدنی اتنے سو سے اتنے ڈالر ہو گئی ہے،زر مبادلہ کے ذخائر اتنے بلین ہو گئے ہیں اور سٹاک ایکسچینج کے ہندسے دس ہزار کی لائن کراس کر گے ہیں۔میگا پروجیکٹس چل پڑے ہیں مگر پاکستانی غریب کے در تک کوئی سہولت نہیں پہنچی۔اسے اپنی انڈے دینے والی مرغی کو بچانے کے لیے اس کے پیچھے کنویں میں چھلانگ لگا کر ہاتھ پاؤں تڑوانے پڑتے ہیں اور گردہ فیل مریض حکمرانوں اور کالم نگاروں کے نام پر دہائیاں دے کر اس وطن کو کوس رہے ہیں جس میں وہ پیدا ہوئے ہیں۔



میرے بھائیو!  اگر آپ یورپ امریکہ،اسٹریلیا،نیوزی لینڈ یا جاپان جیسے دس بیس مالدار مہذب ملکوں میں پیدا ہونے کی بجائے تقریباََ ایک سو ساٹھ سترہ دوسرے غریب تیسری دنیا کے ممالک میں پیدا ہوئے ہوتے تو پھر بھی آپ کا یہی حشر نشر ہوتا۔غریب ہر جگہ غریب ہے اس لئے اس غربت اور بد انتظامیہ اور بے حسی کو صرف پاکستان تک محدود نہ کریں،نانگا نیکا،  ٹمبکٹو،  نائیجیریا ،  سری لنکا  ،  بنگلا دیش، بھارت اور افغانستان میں بھی غربت کا یہی یا اس سے بدتر حال ہے۔پاکستان میں ایماندارانہ  نظام قائم کرنے کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو ایماندار ہونا پڑے گا۔زکواۃ،خیرات و صدقات کی پوری رقم غریب و غربا ء میں تقسیم کرنی ہو گی۔ورنہ ہم اسی طرح روتے روتے مر جائیں گے۔ غریب کا ستیا ناس ہے ہر جگہ اس کا سوا ستیا ناس تو ہو سکتا ہے پونا ستیا ناس نہیں ہو سکتا۔



About the author

shaheenkhan

my name is shaheen.i am student . I am also interested in sports.I feel very good being a part of filmannex.

Subscribe 0
160