نمرود کا واقعہ

Posted on at


حضرت ابراہیمؑ کو دعوت اسلام کی تبلیغ کیلئے بیھجا گیا تھا۔ ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود ان کی قوم نے ان کی ایک نہ سنی۔ ان کی باتوں کو فضول اور جھوٹی باتیں سمجھتے تھے۔ درحقیقت وہ لوگ اپنے باپ داداؤں کے دیے ہوئے مذہب کو نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ جب حضرت ابراہیمؑ نے ان کی عبادت میں رکھے ہوئے تمام بتوں کو توڑ ڈالا تو اس بات پر قوم کو غصہّ آگیااور قوم نے حضرت ابراہیمؑ کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔  حضرت ابراہیم ؑکو آگ میں ڈالنے کا فیصلہ ہو ہی رہا تھا۔ تو یہ بات عراق کے بادشاہ جس کا نام نمرود تھا۔اس کو اس بات کی خبر ہوئی ۔


 نمرود اپنی قوم کا بادشاہ ہونے کے ساتھ ساتھ  اور اپنی قوم کا خالق و مالک سمجھا جاتا تھا۔ اور وہ یہ بات کیسے برداشت کر سکتا تھا۔ نمرود نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس کی قوم کے خلاف کرے۔ کہ کوئی اس کی عبادت کرنے میں کوئی کمی نہ کرے۔ وہ پھر کیسے برداشت کرسکتا تھا۔ کہ ابراہیم کی تبلیغ سے اس کی ملکیت کو زوال آتا اس نے حضرت ابراہیمؑ کو بلایا اور آپؑ نے کسی خوف کے بغیراس بات اعتراف کرلیا  اور حق کا اعلان کیا اور آپؑ نے کہا۔ کہ میرا رب تو وہ ہے۔ جو انسانوں کو زندگی عطا کرتا ہےاورموت بھی وہی دیتا ہے۔ نمرود کہنے لگا کہ میں بھی موت اور زندگی عطا کرسکتا ہوں۔اسں نے ایک بے گناہ گار کو مارا اور ایک مجرم کو آزاد کردیا اور بولا کہ دیکھو میں اس طرح زندگی دیتا ہوں۔ 


آپؑ نے نمرود کو لاجواب کہ دیا۔ یہ بات بول کرکہ میرا رب سورج کو مشرق سے طلوع کرتاہے اور مغرب میں غروب۔ اور اگر تو رب ہے تو سورج کو مغرب سے نکال کے دیکھا۔ نمرود حیراں رہ گیا۔ نمرود یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ اب بادشاہ اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی قوم جواس کی پوجا کرتی تھی۔ اب وہ سب ابرہیمؑ کے دشمن تھے۔ لیکن حضرت ابراہیمؑ بغیر کسی خوف کے اپنی تبلیغ اسلام کی دعوت میں مصروف رہے۔نمرود نے آپؑکو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا اور آگ اللہ کے حکم سے ٹھنڈی ہوگئ اور آپؑ بچ گئے۔


                                                    


 



160