فتح خیبر

Posted on at


عرب میں یہودیوں کی طاقت کا سب سے بڑا مرکز خیبر تھا۔ یہ شہر مدینہ کے شمال میں قریبا تین سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ یہودیوں نے اوّل روز ہی سے اسلام سے دشمنی سے کام لیا۔ اور مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ خیبر کے قریب عرب کا ایک قبیلہ عطفان آباد تھا۔ وہ ان یہودیوں کا بشت پناہ اور اسلام دشمنی میں ان کا حلیف تھا۔ خیبر میں رہنے والے یہودی اور دیگر اسلام دشمن لوگ مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتےتھے۔ اور مدینہ پر حملے کی تیاریوں میں لگے رہتے تھے۔


۸ ہجری کے آخر میں خیبر سے ایک بڑا لشکر مدینہ پر حملہ کے لئے تیار تھا۔ رسول اکرمؐ بھی ان حالات سے بے خبر نہ تھے۔ آپؐ محرم الحرام ۷ ہجری میں قریبا چودہ سو مسلما نوں کو ساتھ لے کر مقابلے کے لئے خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ قبیلہ عطفان تو اپنے گھر کو خطرے میں دیکھ کر تیاری کے باوجود واپس لوٹ گیا۔ اور خیبر کے یہودیوں کی مدد کے لئے مزید آگے نہ بڑھا رسول اللہ کی قیادت میں مسلمانوں کا لشکر جوش جہاد میں آگے بڑھ رہا تھا۔ راستے میں رہنے والے کافروں اور مشرکوں پر خوف طاری ہو رہا تھا۔


حضرت محمدؐ کے جنگ کا طریقہ یہ تھا کہ رات کے وقت حملہ نہ کرتے ۔ مسلمانوں نے آپؐ کی امامت میں فجر کی نماز پڑھی اور شہر کی طرف روانہ ہوئے اہل خیبر اپنی کھیتی باڑی کو نکل رہے تھے۔ لشکر اسلام کو اچانک اپنے سروں پر دیکھ کر شہر کی طرف دوڑے۔ رسول اکرمؐ خیبر والوں کی بدحواسی اور خوف کا یہ منظر دیکھ کر فرمایا اللہ اکبر خیبر تباہ ہوا۔ اللہ اکبر خیبر تباہ ہوا، جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو ان کی صبح بخیر نہیں ہوتی چودہ دن کے محاصرے کے بعد دشمن بے بس۔ بالآخر یہودیوں نے پورے طور پر مسلمانوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور کچھ قلعے جنگ کیے بغیر فتح ہو گئے۔ مسلمانوں کو غزوہ خیبر میں بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ لگا۔


حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں۔


ہم لوگ آسودہ نہ ہوئے یہاں تک کہ ہم نے خیبر کو فتح کر لیا۔



160