جاگیردارانہ نظام

Posted on at


پاکستان کے قیام کے ہی ساتھ ہماری اشرافیہ کو انگریز کا دیا ہوا فرسودہ نظام سے جان چھوڑنا تھی اور   ملک میں بہترین اسلامی نظام کا نفاذ کرنا تھا اور انگریز کے رائج الوقت تمام حکومتی نطام کو یا تہ تبدیل کرنا تھا یا پھر ان میں اصلاحات کر کے بہتر کرنا  تھا۔  لیکن اس کے برعکس اشرافیہ میں زیادہ تر وہ  لوگ تھے انگریزی حکومت کے دیئے ہونئے اثاجات کے مالک تھے، قیام پاکستان سے پہلے انگریز حکومت کا طرز حکمرانی بڑی بڑی زمینی رقبے لوگوں کو نواز کر ان علاقوں میں حکومت کرنا تھا۔  اور ان لوگوں کا جاگیردار اور نواب جیسے القاب سے نوازہ جاتا تھا۔

پاکستانی قوم کی بدقسمتی سمجھے قیام پاکستان کے بعد یہی جاگیردار اور نواب ہمارے قائدین بن گئے اور اپنی جائدادوں اور جاگیروں کو برقرار رکھنے کے لئے کوئی بھی زرعی اصلاحات نہ کی بلکہ اس انگریزی نظام کو مذید بگاڑ دیا اور انگریز دور کے دوران زمینوں سے جو مالیہ وصول کیا جاتا تھا وہ بھی ختم کر دیا جس کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ اربوں کا نقصان ہوتا آ رہا ہے۔

جبکہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت بلکہ بنگلہ دیش نے بھی انگریزی  جاگیرداری نظام برسوں پہلے ختم کر دیا تھا۔ جس  کی وجہ   وہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن نظر آتے ہیں۔

 

    جاگیرداری نظام کو  1977 میں ختم کرنے کے لئے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی عظیم کاوش کو نہیں بھلا جا سکتا ، اور  انھوں نےایک قانون پاس کروایا جس کے مطابق کوئی زمیندار 100 ایکڑ نہری اور 200 ایکڑ بارنی زمین سے زیادہ نہیں رکھ سکتا تھا۔  اصل میں اس قانون کا مقصد بڑے کسانوں سے زمین لے کر چھوٹے کسانوں میں زمین تقسیم کرنی تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ملک میں مارشل لاء لاگو کر دیا گیا اور اس وقت کے آمر حکمران نے ایک اسلامی شریعت کورٹ بنائی تو بڑے بڑے زمینداروں اور بعض مذہبی رہنماؤں کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اس قانون کو غیر اسلامی دے کر ختم کرا دے اور اس قانون کے خلاف مقدمے دائر کئے گئے اور 1989 میں فیڈرل کورٹ کے ایک اپیلٹ پینچ نے فیصلہ سنایا کہ جاگیرداری نظام کو ختم کرنا غیراسلامی ہے چونچہ دو مفتی علماء اور ایک مذہبی جج کے فیصلے  کی وجہ سے  پاکستان سےجاگیرداری نظام نہیں ختم کیا جا سکا اور ہماری آبادی کا ایک بڑا حصہ ایک اچھی زندگی گزارنے سے محروم ہو گیا۔ ساتھ ساتھ فوجی حکومت نے زرعی انکم ٹیکس بھی ختم کر دیا تھا جس کی وجہ سے حکومتی خزانے کو سالانہ 16 ارب سے زائد کا نقصان ہوتا آرہا ہے۔ جس کا خاسارہ پورا کرنے کے لئے اب یہ رقم غریب عوام سے لی جاتی ہے۔

جاگیردارنہ نظام ترقی یافتہ ممالک سے تو صدیوں پہلے ختم کیا جا چکا ہے۔ اور انڈیا اور بنگلہ دیش سے اسے 40 سال پہلے ختم کر دیا گیا ہے۔ اور ہمارے ملک میں یہ نظام اب تک قائم ہے۔

ہمیں اپنی معاشرتی، معاشی اور عملی ترقی کے لئے فرسودہ جاگیرداری نظام کی زنجیروں کو توڑنا ہو گا تاکہ ہمارے معاشرے سے معاشی ناہمواری اور غربت ختم ہو سکے اور یقیناً ملک کی ترقی عوام کی حالت بہتر بنانے میں ہے۔

%MCEPASTEBIN%



160