ڈاکٹر عبدل قدیر خان پاکستان کے ہیرو ٢

Posted on at


دوسرا واقعہ جس نے ڈاکٹر عبدل قدیر خان کی زندگی پر بڑا گہرا اثر ڈالا وہ ہے مشرقی پاکستان کا مغربی پاکستان سے علیحدہ ہونا ۔ پاکستانی جنرل نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور پھر سر عام بھارتی جنرل نے پاکستانی جنرل کے بیج کھینچ کر وردی سے اتار دیے جسکا عبدل قدیر خان کو بہت  دکھ ہوا ۔

اس دوران ایمسٹر ڈم سے منسلک ہو کر ان کو خدمت فراہم کر رہے تھے ۔ یہ ایک ایسی انجینرنگ فرم ہے جو ہوائی سرنگوں ، بحری جہازوں ، ریلوے انجنوں الٹرا سنٹری فیوجز میں خاصی مہارت رکھتی ہے ۔ جب وہ ١٩٧٥ میں تعطیلات کیلئے پاکستان آۓ تو ان کے دل میں پاکستان کیلئے کچھ کرنے کی خواہش پیدا ہوئی ۔

جس کیلئے انہوں اس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا کہ میں نے میٹالرجی میں ڈاکٹریٹ کے علاوہ ان مضامین پر بہت سی تحقیقات کے علاوہ ایک کتاب بھی لکھ چکا ہوں ۔ اور یورینیم کی افزودگی جیسے پیچیدہ ترین کاموں میں بھی مہارت رکھتا ہوں ۔ جسکا کام سنٹری فیوجز سسٹم کے ذریعے یورینیم کی افزودگی ہے ۔ اس کے ذریعے بہت کم خرچ میں ایٹمی توانائی کا حصول ممکن ہے اور اسی عمل کے ذریعے بہت کم وقت میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا جا سکتا ہے ۔

ذوالفقار علی بھٹو خود بھی اس میں معاملے میں بہت جذباتی تھے کیونکہ بھارت نے ١٩٧٤ میں ایٹمی دھماکہ کر کے خطّے میں اپنی برتری ثابت کر دی ۔ جب کہ پاکستان ایٹمی طاقت میں صفر تھا ۔ ڈاکٹر عبدل قدیر خان کی اس آفر کو ذوالفقار علی بھٹو نے اسی وقت ہی قبول کر لیا ۔ ڈاکٹر عبدل قدیر خان نے جلد ہی اس کام کو شروع کر دیا اور طویل عرصے کے بعد آخر کار وہ اس میں کامیاب ہو گئے ۔ اور ایسا کام کردیا جو غیروں کے علاوہ اپنوں کیلئے بھی حیران کن تھا ۔ مگر پاکستان کو اس بات کے اظہار کا موقع نہ مل رہا تھا ۔

بھارت نے ایک بار پھر خطّے میں کھلبلی مچانے کیلئے ١٩٩٨ میں ایک اور دھماکہ کر دیا تھا ۔ پاکستان نے اسکا بھرپور جواب دیا اور چند دنوں بعد ١٩٩٨ میں ہی دھماکہ کر کے بھارت کو اسکا منہ طور جواب دیا ۔ اسطرح پاکستان اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک بن گیا ۔ اس دن کو پاکستان میں یوم تکبیر کے نام سے جانا جاتا ہے اور ڈاکٹر عبدل قدیر خان کو محسن پاکستان کا لقب دیا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ سب کچھ انکی کوشش کی بدولت ہی ممکن ہوا ۔

  

 



About the author

160