کینگرو ۔ آسٹریلیا کی خاص نشانی

Posted on at


بچے ہوں یا بڑے ، کینگرو کسی کے لیے اجنبی نہیں۔ کیونکہ صرف براعظم آسٹریلیا میں ملنے والا یہ حیوان کئی منفرد خوبیوں کا مالک ہے۔ مثلاً یہ ہماری طرح چلنے کے بجائے اچھل کر چلتا اور بھاگتا ہے۔ پھر مادہ کینگرو کے پیٹ پر ایک تھیلی ہوتی ہے جو دراصل اس کے بچے کا عارضی گھر ہے۔ وہ اسی میں پرورش پاتا اور پلتا ہے۔


دنیا میں کینگرو کی ۵۰ سے زائد اقسام ہیں۔ ان میں چار قسم کے تو بڑے کینگرو ہیں۔ ان سے چھوٹے: ولارو اور وا لابی کہلاتے ہیں۔ مزید چھوٹے کینگرو پیڈ یمیلون اور شجری کینگرو ہیں۔ آسٹریلیا میں پائے جانے والے دیگر چھوٹے تھیلی دار جانور بھی کینگروز کے رشتے دار ہیں۔ ان میں چوہا کینگرو قابل ذکر ہے۔ تمام تھیلی دار جانوروں کے پیٹ پر بچے یا خوراک رکھنے کے لیے تھیلی ہو تی ہے۔


کینگرو آسٹریلیا کا قومی جانور ہے۔ اسی لیے آسٹریلوی حکومت کی علامت کورٹ اف ارمز پر ایمو کے علاوہ کینگرو بھی بنا ہوا ہے۔ ان دونوں کا انتخاب اس لیے ہوا کہ یہ جانور ہمیشہ آگے چلتے ہیں ، پیچھے نہیں چل سکتے۔ آسٹریلوی تہذیب و ثقافت میں کینگرو مختلف انداز میں نظر آتا ہے۔


کینگرو کی پچھلی ٹانگیں مضبوط ، لمبی اور طاقت ور ہوتی ہیں۔ وہ انھی کے ذریعے اچھل اچھل کر چلتا ہے۔ پیر بھی چوڑے ہوتے ہیں تاکہ اچھلنے کودنے میں آسانی رہے۔ اپنی موٹی اور لمبی دم کے ذریعے و کھڑے اور چلتے ہوئے توازن پرقرار رکھتا جہے۔ قدرت نے کینگرو کو طاقت ور ٹانگیں دی ہیں تاکہ ہو خوراک کی تلاش میں دور دراز مقامات تک با آسانی سفر کرسکے۔


کینگرو گھاس ، پتے ، جڑ اور کونپلیں کھاتے ہیں۔ وہ غذا گائے کی طرح نکلتے ، پھر آرام سے بیٹھ کر واپس اُگلتے اور جگالی کرتے ہیں۔ عموماً صبح سویرے یا رات کو کھانے پینے نکلتے ہیں۔ جنگل میں کینگرو چھ سات سال زندہ رہتے ہیں جبکہ چڑیا گھر میں بیس سال تک گزار جاتے ہیں۔


کینگرو ماں بڑی توجہ اور محبت سے اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے۔ پیدائش کے وقت بچہ صرف ۲ سینٹی میٹر لمبا اور ۲ گرام سے بھی کم وزنی ہوتا ہے۔ وہ ماں کی تھیلی میں داخل ہو کر دودھ پیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تھیلی اسی لیئے پیدا فرمائی کہ بچہ بہ حفاظت وہا ن پرورش پا سکے۔ تب بچے کی آنکھیں بند ہوتی ہیں اور اس کی کھال بھی نہیں ہوتی۔ چھ ماہ تک بچہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ تھیلی سے باہر آسکے۔ وہ باہر آکر پھر دنیا کی رنگ برنگی چیزوں کو حیرت سے دیکھتا اور ان سے مانوس ہوتا ہے۔


نو سے بارہ ماہ میں بچہ بڑا ہو جاتا ہے۔ تب وہ اپنا عارضی گھر یعنی ماں کی تھیلی چھوڑ کر درخت کے نیچے کسی کھوہ یا غار میں رہنے لگتا ہے۔ بعض بچے تو ۱۸ ماہ تک تھیلی میں ماں کا دودھ پیتے رہتے ہیں۔


اللہ تعالیٰ نے ماں کو تھیلی کے عضلات کنٹرول کرنے کی صلاحیت دی ہے۔ اسی لیے جب وہ اچھلتی کودتی ہے، تو تھیلی سکیٹر لیتی ہے۔ یوں بچہ باہر نہیں گرتا۔ جب ماں کو زبان کے ذریعے تھیلی صاف کرنی ہو یا بچہ باہر نکلنا چاہے تو وہ اپنے عضلات ڈھیلے کردیتی ہے۔


کینگرو گرو بنا کر رہتے ہیں۔ ایک گروہ میں عموماً دس سے پچاس تک نر و مادہ ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا اور طاقت ور نر گروہ کا سردار ہوتا ہے۔ گروہ کے سبھی ارکان اکٹھے گھومتے پھرتے اور غذا تلاش کرتے ہیں۔ کینگرو عموماً ان علاقوں میں بستے ہیں جو بنجر ویران اور خشک ہیں۔ لہذا وہاں پانی کم ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ سہولت دی ہے کہ انھیں پیاس کم ہی لگتی ہے۔ اگر پیاس زیادہ لگے ، تو کینگروز کی بعض اقسام گرھا کھود کر پانی نکال لیتی ہیں۔


کینگرو کی نظر تیز ہوتی ہے۔ لیکن ہو صرف متحرک شے ہی کو بغور دیکھتے ہیں۔ ان کی سننے کی حس بھی عمدہ ہے۔ وہ اپنے کان چاروں طرف گھما سکتے ہیں تاکہ ہر سمت سے آنے والی آواز سن سکیں۔ اپنی سونگھنے کی حس سے کینگرو ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں۔ جب ایک گروہ میں کوئی نیا کینگرو آئے ، تو بقیہ سب ارکان اسے سونگھتے ، ناک سے ناک ٹکراتے اور یوں اپنا دوست بنا لیتے ہیں۔


جنگل و صحرا میں کینگروز کا سب سے بڑا دشمن آسڑیلیا کا جنگلی کتا ڈنگو ہے۔ چونکہ ڈنگو کتے جھتے کی شکل میں شکار کرتے ہیں لہذا کوئی کینگرو ان کے درمیان پھنس جائے ، تو وہ بمشکل ہی بچ پاتا ہے۔ اسی لیے کینگرو ڈنگو کتوں کی آوازیں سنتے ہی خوف کے مارے بھاگ کھٹرے ہوتے ہیں۔ تاہم اگر کسی کتے کو کینگرو کی دولتی لگ جائے تو وہ زخمی ہو کر مر سکتا ہے۔


کینگرو کی لڑائی خاصی دلچسپ ہوتی ہے کیونکہ وہ باکسروں کی طرح کھٹر ہوکراپنی دونوں اگلی ٹانگوں سے ایک دوسرے کے سینے اور سر پر مُکے مارتے ہیں۔ یہ مُکے تو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے لیکن کوئی کینگرو اُچھل کر پھچلی ٹانگیں دوسرے کے سینے پر مارے ، تو یہ وار خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ وجہ یہ ہےکہ پیروں کے لمبے تیز ناخن کھال پھاڑسکتے ہیں۔ لڑائی کے دوران میں جب کمزور کینگرو فرار ہو جائے۔ تو لڑائی ختم ہو جاتی ہے۔ لڑائی کسی بھی وجہ مچلاً غذا یا پانی پر قبضہ کرنے سے ہو سکتی ہے۔


سرخ کینگرو


کینگروز کے خاندان میں سب سے بڑا سرخ کینگرو ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا تھیلی دار جانور ہے۔ یہ وسطی آسڑیلیا میں ملتا ہے۔ یہ ۱۰ فٹ لمبا، ۵ فٹ اونچا اور ۱۳۵ کلو وزنی ہوتا ہے۔ اس کی دم ساڑھے تین فٹ ہوتی ہے۔ بعض بڑے سرخ کینگرو ساڑھے چھ فٹ تک بھی اونچے ہو سکتے ہیں۔ یہی سب سے تیز رفتار کینگرو بھی ہے۔ سرخ کینگرو مختصر فاصلے تک ۷۰ کلو میٹر فی گھنٹا کی رفتار سے بھاگ لیتا ہے۔ سرخ کینگرو دوڑتے ہوئے ۸ میٹر لمبی اور ۳ میڑ اونچی چھلانگیں لگا سکتا ہے۔


اینٹیلو پائن کینگرو


یہ کینگرو خاندان کا چوتھا بڑا رکن ہے۔ شمالی آسٹریلیا کے صحرائی و چٹانی علاقوں میں ملتا ہے۔ اینٹیلوپائن ساڑھے پانچ فٹ لمبا اور ۴۸ کلو وزنی ہوتا ہے۔ اس کے منہ کی کھال سرخ جبکہ بقیہ بدن کی رنگت خاکستری (مٹی جیسی) ہوتی ہے۔


مشرقی خاکستری کینگرو


یہ کینگرو مشرقی آسٹریلیا میں ملتا ہے۔ یہ ۶ فٹ لمبا اور ۶۶ کلو تک وزنی ہوتا ہے۔ اس کی کھال سرخ کینگرو کی نسبت زیادہ موٹی اور نرم ہوتی ہے۔ یہ بھی بھاگتے ہوئے ۹ میٹر لمبی چھلانگیں لگا لیتا ہے۔ تقریباً ۲۵ کلو میٹر فی گھنٹا کی رفتار سے بھاگتا ہے۔


مغربی خاکستری کینگرو


یہ جنوب مغربی آسڑیلیا میں پایا جاتا ہے۔ یہ ساڑھے پانچ فٹ لمبا اور ۵۰ کلو گرام وزنی ہوتا ہے۔ اس کی خا ص بات یہ ہے کہ یہ تمام کینگروز میں سب سے زیادہ بولتا ہے۔ خصوصاً ماں اور بچے کے درمیان ہر وقت بات چیت جاری رہتی ہے۔


ولارو کینگرو


یہ چار بڑے کینگروز سے کچھ ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان کی تین اقسام ہیں۔ تینوں مشرقی آسٹریلیا کے چٹانی علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ ولارو پانچ فٹ تک لمبے اور ۴۵ کلو وزنی ہوتے ہیں۔ ان کی کھال گہری خاکستری یا بھوری ہوتی ہے۔ یہ ہر وقت بڑے چوکنے رہتے ہیں۔


والابی ۔۔۔ چھوٹا کینگرو


آسٹریلیا کے تمام کینگرو شکل و صورت اور عادتوں میں ملتے جلتے ہیں۔ اسی لیے انھیں قد کاٹھ کے اعتبار سے مختلف گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ چنانچہ چار بڑے کینگرو اور ولارو کے بعد والابی کا نمبر ہے۔ ان کی ۳۰ اقسام ہیں۔ یہ کینگرو دم تک ا سے ۴ فٹ لمبے اور ۲ سے ۲۴ کلو وزنی ہوتے ہیں۔ آسٹریلیا کے جنگلوں ، صحراؤں یا پہاڑی علاقوں میں بستے اور ۹ سال تک زندہ رہتے ہیں۔ بعض اقسام کے والابی کی ٹانگیں خاصی لمبی ہوتی ہیں ، چنانچہ وہ انھیں ہماری طرح بطور ہاتھ استعمال کرتے ہیں۔


چٹانی والابی کینگرو


یہ والابی کی سب سے مشہور قسم ہے۔ یہ بڑے پھر تیلے کینگرو ہیں اور چٹانوں پر پھرتی سے اترتے چڑھتے ہیں۔ دوڑتے ہوئے ۴ میڑ لمبی چھلانگ لگاتے ہیں۔ تاہم یہ درختوں پر نہیں چڑھ سکتے۔ جب شدید گرمی ہو ، تو چٹانی والابی دن بھر چٹانوں کے زیر سایہ یا غاروں میں آرام کرتے ہیں۔ صبح سویرے یا شام کو گھاس کھانے نکلتے ہیں۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ جب کوئی جنگلی کتا یا انسان قریب آئے، تو زمین پر زور زور سے پیر مارتے ہیں تاکہ دوسرے خبردار ہو جائیں۔


پیڈ یمیلون کینگرو


یہ قد کاٹھ اور وزن کے لحاظ سے چوتھے بڑے کینگرو ہیں۔ ۵۔۱۶ انچ سے ۵۔۲۰ انچ لمبے اور ۵۔۳ سے ۱۲ کلو وزنی ہوتے ہیں۔ ان کی ۷ اقسام ہیں۔ یہ آسٹریلیا کے ساحلی جنگلوں میں بستے اور ۴ تا ۸ سال زندہ رہتے ہیں۔ ان کی چھوٹی اور موٹی دم پر بہت کم بال ہوتے ہیں۔ ان کی کھال سیاہ بھورییا خاکستری ہوتی ہے۔


شجری کینگرو


کینگرو خاندان میں شجری کینگرو سب سے منفرد ہیں کیونکہ کہ اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ درختوں پر گزارتے ہیں۔ یہ آسٹریلوی ریاست کوئنز لینڈ کے علاوہ پا پوا نیو گنی کے جنگلوں میں بھی ملتے ہیں۔ ان کی ۱۶ سے ۳۴ انچ لمبی دم درختوں پر اترتے چڑھتے ہوئے توازن قا ئم رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ درختوں پر چڑھے ہوئے شجری کینگرو بڑے چست و چا لاک ہوتے ہیں۔ ہو چھلانگ مارکر ۳۰ فٹ دور درخت پر جا پہنچتے ہیں۔ شجری کینگرو اگر ۶۰ فٹ اونچائی سے زمین پر چھلانگ ماریں تب بھی انہیں کو ئی چوٹ نہیں آتی۔


چوہا کینگرو


یہ سب سے چھوٹا کینگرو ہے۔ کہ ایک فٹ لمبا اور دو سے تین کلو وزنی ہوتا ہے۔ اس کی دُم پر بال نہیں ہوتے۔ یہ پھل اور بیج کھاتا ہے۔ چو ہا کینگرو خرگوش کی طرح چلتا اور پچھلی ٹانگوں کی مدد سے درختوں پر بھی چڑھ جاتا ہے۔


آ سٹریلیا کی جن ریاستوں مین کینگرو کی بہتات ہے، وہاں سٹرکوں پر جگہ جگہ کینگرو سے ہوشیار رہیے کے بورڈ لگے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ سڑک پار کرتے ہوئے اکثر کینگرو کاروں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ چونکہ کینگرو بھاری جانور ہے۔ لہزا اکثر اس کی ٹکر سے قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160