ادیب کے فرائض

Posted on at


ادیب کا فرض ہے کہ وہ انسانی ذہن کو ایسی غذا مہیا کرے جو تعمیری حیاتین کے خزانے سے مالا مال ہو، ورنہ حیات عمل تخریب کی دلدل میں پھنس کر رہ جائے گی اور اس سے بچ نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ ادیب کےلیے جن صفات سے متصف ہونا اسلامی ضابطہ حیات نے لازمی قرار دیا ہے وہ یہ ہیں۔



ایمان


ادیب کا دل اگر ایمان بالا کے ہتھیار سے مکمل طور پر مسلح ہو گا تو وہ ترقی پسند ادب ہو یا تجریدی آرٹ، رومان انگیزی ہو یا جنس بازی، سرخ انقلاب کے جبڑے ہوں یا جمہوریت کے نوکیلے پنجے، ان سے بے نیاز اور نڈر ہو کر اس کا قلم پکار اٹھے گا۔


‘‘میں صرف اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، جو زمین و آسمان کا فاطر ہے۔ میں موحد یعنی توحید الہٰی پر قائم ہوں اور مشرکوں میں ہر گز نہیں۔’’


 


علم


ادیب اپنے قارئین کے دل و دماغ میں وہی کچھ سموتا ہے جس کا علم اسے خود ہوتا ہے۔ لہٰذا ادیب کا صاحب علم ہونا بہت ضروری ہے۔ علم بھی وہ جو خیرو حکمت پر مبنی ہو۔ جس کا سرچشمہ رسولؐ اللہ کی تعلیمات ہیں۔ ان تعلیمات کے مطابق علم کا حصول ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ گویا ادیب مرد ہو یا عورت، دونوں صاحب علم ہوں تو بات بنتی ہے۔ دین کے علم کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے واقفیت بھی انتہائی اہم ہے۔ تبھی تو ادیب اپنے دین کا دفاع ٹھوس، مستحکم اور مضبوط دلائل کے ساتھ کر سکے گا۔


 


بصیرت


ادیب اپنے سامنے واقع ہونے والے حادثات سے متاثر ہوتا ہے۔ اگر ادیب بالغ النظری اور بصیرت کے زیور سے آراستہ ہو گا تو وہ احساسات کو قرطاس پر منتقل کرتے ہوئے جبر کو احسن طریقے سے پیش کرے گا۔ اس صورت میں ہی وہ اپنے ملی فریضہ (تم ایک خیر امت ہو جو لوگوں کے لیے مخصوص کی گئی ہے، تم لوگوں کو مصروف کا حکم دیتے ہو، منکر سے روکتے ہو) کو ادا کر سکے گا۔


 


مجاہدانہ کردار


ادیب ایک ایسا مجاہد ہے جسے ہر وقت کسی نہ کسی جہاد سے واسطہ رہتا ہے۔ برائی کو ہوتے دیکھ کر چپ رہنا گویا برائی میں شامل ہونا ہے۔ ادیب اپنے قلم سے تلوار بے نیام کا کام لے کر برائیوں کو نیست و نابود کر سکتا ہے۔ ادیب میں لادینی اور اسلام دشمن افکار کے سامنے بند باندھنے کی طاقت ہونی چاہیے۔ اسے سننے اور کہنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے۔ کیونکہ جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا بھی جہاد ہے۔


 


حیاء


مسلمان ادیب کو چاہیے کہ اپنے جذبات، احساسات کو ادبی سانچے میں ڈھالتے وقت حیا کے تقاضوں کو مد نظر رکھے۔ عریاں نگاری سے پرہیز کرے۔ برائی اور بے حیائی سے تعلق رکھنے والے الفاظ کے استعمال سے جہاں تک ہو سکے بچے۔ حضرت محمدؐ کا ارشاد ہے۔ ‘‘حیا ایمان کا حصہ ہے۔’’


بے حیائی اگر معاشرے میں عام ہو جائے تو معاشرہ بے باک ہو جاتا ہے۔ اس میں لاقانونیت، بد اخلاقی اور بے دینی کا چلن عام ہو جاتا ہے۔ بے حیائی کو عام کرنے یا نہ کرنے میں ادیب کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ لہٰذا ادیب کو حیا کے اصولوں کی پاسداری کر کے اپنے ایمان کا دفاع کرنا چاہیے۔


 


احساس امانت


ادیب کو لکھنے کی صلاحیت عطا کر کے اللہ تعالیٰ نے اس پر بڑا احسان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پیش کردہ امانت، قلم اور رقت نگارش کو صرف اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق استعمال کرنا چاہیے ورنہ کافروں کی سزا جہنم کے سوا کچھ نہیں ہے۔ادیب جن واقعات کو دیکھے، انہیں سپرد قلم کرتے وقت جانبداری یا عصیبت کے زہر سے آلود نہ کرے، اللہ تعالیٰ کے احکام کی پاسداری کو ہر حال میں مقدم رکھے۔



زبان عبور


ادیب کے لیے زبان سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ ادیب نگارش میں حسن، کلام میں تاثیر، ادب میں حیات افزائی اور الفاظ کی بندش کے اصولوں سے جانکاری رکھتا ہو۔ اسلام اور غیر اسلامی اصطلاحات میں فرق کر سکتا ہو۔ تراکیب و استعارات کا انتخاب اس کے اسلامی تشخص کا آئینہ دار ہو، روشن خیال یا بہت بڑا ادیب بننے کے زعم میں غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور حیا سوز مناظر کشی و الفاظ آراستی کے پھندے میں نہ پھینکے۔ اپنے قاری اور سامع کے دل میں غیر محسوس طریقہ سے برائی سے نفرت اور اچھائی سے محبت کے جذبات منتقل کرنے کے رویوں سے واقف ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہر ادیب کو ادب اور اس کے تقاضوں کو باحسن طور پر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔




About the author

Asmi-love

I am blogger at filmannex and i am very happy because it is a matter of pride for me that i am a part of filmannex.

Subscribe 0
160