وھم کا علاج تو کہا جاتا ہے کہ لکمان حکیم کے پاس بھی نہیں تھا اور نہ ہی کبھی ہو سکتا تھا کیوں کہ یہ چیز انسان کے اندر چھپا ایک جراثیم ہوتا ہے جو اسے ہر وقت اداس کر دیتا ہے ہر انسان آج کل وھم کا شکار ہے ١٠٠ میں سے ٩٠ پرسنٹ لوگ پاکستان میں اس مرض کا شکار ہو رہے ہیں اور وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ اس کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے ،
جیسا کہ آج کل ہر گھر میں گھریلو پریشانیاں بڑھ رہی ہیں اور ہمارے بچے اور نوجوان اسی پریشانی کی بنا پر باتیں دل پر لے لیتے ہیں اور اسی بات کو سوچ سوچ کر ہوتا کیا ہے پہلے ان کی بھوکھ ختم ہو جاتی ہے اور پیٹ میں درد ہونے لگتا ہے آہستہ آہستہ ان کا دماغ بھی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور ویسے ہی کوئی بیماری نہ ہونے کے باوجود وو اپنے آپ کو بیمار محسوس کرتے ہیں اور انھیں یہ لگتا ہے کہ وو اب کسی کام کے قابل ہی نہیں رہے
اور وو اسی وجہ سے بیمار پڑھ جاتے ہیں اور اگر کسی کو بھی کوئی بھی بیماری ہو تو وو سمجھتے ہیں کہ ہمیں بھی یہی بیماری ہے لیکن یہ محض ایک وھم کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا اور جب وو ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو ڈاکٹر بھی انھیں ڈپریشن کی ہی دوا دیتے ہیں جن میں سب سے زیادہ گولیاں نیند کی ہوتی ہیں اور آہستہ آہستہ وو مریض ان دواؤں کا عادی ہو جاتا ہے جو کہ ایک نوجوان کے لئے بلکل بھی ٹھیک نہیں ہے ،اور وو بچے وو نوجوان تباہ ہو کر رہ جاتے ہیں اور نہ ہی وو ٹھیک طرح سے پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی روز مرا کے باقی کام اچھے تریکا سے کر سکتے ہیں بس وو ہر روز بیڈ پر لیتے رہتے ہیں خوشیوں سے دور اپنے رشتے داروں اپنے آپ سے دور اور ان کے والدین ان کے لئے بوہت اداس رہتے ہیں لیکن انھیں یہ نہیں پتا ہوتا کہ یہ کیوں کیسے ہوا کیا وجہ ہے کہ ان کے بچے ایسے ہو رہے ہیں ایک ذہنی مریض کی طرح اس کی اصل وجہ سے یہ ہے
جب آپ کو کوئی دھوکھا دے یا آپ کو اپنے ماں باپ کا پیار نہ ملے یا کم عمری میں ہی آپ کو بڑھی مشکل زندگی کا سامنا کرنا سکھایا جائے تو یہی وجہ ہوتی ہے کہ آپکے بچے اور نوجوان لوگ اسی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں اسی لئے اپنے بچوں کو اللہ کی رحمت کے بارے میں بتایا جائے کہ اللہ رحم کرنے والا ہے اس لئے بچے خوش بھی رہیں گے اور ذہنی طور پر بھی ٹھیک رہینگے اور اپنی طرف سے ان بچوں کا جو حق ہے اس سے بڑھ کر دیں ورنہ آپ کے بچوں کو کوئی اس مرض سے نہیں روک سکے گا اور عمر بھر کے لئے وو ذہنی مریض بن کر رہ جائینگے اور اپنے ماں باپ کی محبت اور پیار دوسروں میں تلاش کرینگے جو کہ ملنا اس دور میں بوہت مشکل ہے .اور نہ ہی کبھی مل سکتا کیوں کہ ماں باپ سے زیادہ پیار کوئی کر ہی نہیں سکتا ،
اس کے بعد وو نوجوان جو بے روزگار ہونے کی وجہ سے وھم کا شکار ہوتے ہیں وو اس وجہ سے کہ اگر ایک شخص ہے اس نے اپنا پڑھنا ختم کر دیا ہے اور اچھے نمبروں سے پاس ہوا ہے اور جب وو کام کے لئے اپنے ڈاکومنٹ دیتا ہے اسے انٹرویو کے لئے بلایا جاتا ہے اور انٹرویو بھی پاس کر لیتا ہے لیکن ایک اور شخص ہے جو انٹرویو پاس بھی نہیں کرتا اور اسے نوکری مل جاتی ہے تو جو انٹرویو ٹیسٹ پاس کر کے بھی نوکری حاصل نہیں کر سکا تو یہ شخص لازمی ذہنی مریض بن جاتا ہے یہی بات سوچ سوچ کر اور اس قبل ہونے کے با وجود بھی اس کی ذمہ داری ہماری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وو اس شخص کو نوکری دے جو کہ اس قابل ہے نہ کہ اس شخص کو کہ جو اس قابل ہی نہیں ورنہ اس شخص کو حق حاصل ہے کہ بجاے اس کے کہ خود اپنی زندگی تباہ کرے اس سے اچھا ہے کہ قانون کا راستہ پکڑے اور ہمت سے اور ایمانداری سے اپنا حق حاصل کرے جو کہ اس کا حق ہے اور خوش رہے کیوں کہ خوشی ہی انسان کو زندگی کی امید دلاتی ہے
اب وو لوگ جو اس موزی مرض کا شکار بنتے ہیں ان میں زیادہ تر غریب لوگ ہوتے ہیں جن کو ایک وقت کا کھانا تک میسر نہیں ہوتا اور وو غریب لوگ جب دوسروں کو اچھے اچھے کپڑے پہنے اچھا کھانا کھاتے اور اچھے چپل پہنے دیکھتے ہیں تو ان کے من میں ایک خاھش پیدا ہوتی ہے کہ کاش ہم بھی یہ سب کر سکتے اور ان بیچاروں کے پاس اپنا پیٹ بھرنا تک مشکل بلکہ نہ ممکن ہوتا ہے ایسے لوگوں کا ہم پر فرض بنتا ہے کہ ہم ان غریب لوگوں کی مدد کریں اور جیسا اپنے لئے خریدیں ویسا ہی ان غریب لوگوں کے لئے بھی خریدیں جیسا خود کھائیں ویسے ہی کھانا ان کو بھی دیں ٹیب جا کر ہمارے پاکستان میں ڈپریشن ،نفسیات وھم جیسی موزی مرض ختم ہو سکتا ہے
اس کے علاوہ نماز کی پابندی اور زیادہ سے زیادہ خوش رہنا کسی کام میں اپنے آپ کو مصروف رکھنا اس سے ہی آپ کا وہم ختم ہو سکتا ہے الله ہم سب کی مدد فرمائے اور ہمیں اس موزی مرض سے بچاۓ امین