جب قرارداد پاکستان منظور ہوئی ۱

Posted on at


آج میں جس موضوع پر بات کر رہا ہوں وہ ہے برصغیر پاک و ہند پر ۔ برصغیر پر برطانیہ کا قبضہ تھا ۔ برطانیہ برصغیر میں تجارت کی غرض سے آیا تھا کیونکہ برصغیر کو اسوقت سونے کی چڑیا سے جانا جاتا تھا ۔ اسلئے برطانیہ نے آہستہ آہستہ برصغیر پر قابض ہونا شروع کر دیا ۔ اس قبضے کو ختم کرنے کیلئے جوکوششیں کی گئیں ان کا ذکر آگے ہے ۔



قائد اعظم نے لکھنؤ کے اجلاس میں ہندو مسلم اتحاد کی بھرپور کوشش کی ۔ تا کہ برصغیر سے برطانیہ کے راج کو ختم کیا جاۓ لیکن ہندؤں نے وعدہ خلافی کی ۔ اسطرح کانگریس کا پول کھل گیا اور معاہدہ لکھنؤ ختم ہو گیا ۔ اس سے پہلے بھی ١٨٧٦ میں ہندوں کی جانب سے عربی اور فارسی کو ختم کر کے دیوناگری اور ہندی کو سرکاری زبان کا خطاب دیا جاۓ ۔



١٩٣٧ کے انتخابات کے بعد کانگریس کو اقتدار ملا تو ہندوں نے مسلمانوں پر مظالم کی   انتہا کر دی ۔ مسلمانوں کیلئے ترقی کے تمام راستے بند کردیے آخر کر ١٩٣٩ میں کانگریس کا سورج غروب ہو گیا ۔ اس سیاہ رات کے ختم ہونے پر برصغیر کے مسلمانوں نے اس دن کو یوم نجات کے دن کے طور پر منایا ۔ یہ کچھ ایسے واقعات تھے جنہوں نے مسلمانان ہند کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ۔ اس کے بعد ٢٢ تا ٢٤ مارچ تک لاہور میں اجلاس کا فیصلہ کیا گیا قائد اعظم نے پہلے ہی باقی ارکان پر واضح کر دیا کہ اس اجلاس میں علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا جاۓ گا جس کو رکوانے کی بہت کوشش کی گئی ۔



جب مسلم لیگ کا اجلاس شروع ہوا تو قائد اعظم نے اسکی صدارت کی ۔ جس میں انہوں نے اس مسئلے کو بین الاقوامی کہا اور اسکو حل کرنے کیلئے بھی  بین الاقوامی قوانین کو استعمال کرنے کا کہا اور ساتھ ہی برطانیہ کی حکومت پر یہ بھی واضح کر دیا کہ اگر برطانوی حکومت برصغیر میں امن چاہتی ہے ۔ تو ہندوستان کو دو الگ ملکوں میں تقسیم کر دے ۔ کیونکہ ہندو اور مسلم دو الگ قومیں ہیں ان کے درمیان شادیاں نہیں ہوتیں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے ، دونوں کے مذھب الگ الگ ہیں اور انکا رهن سہن بھی مختلف ہے ۔ اگر ان میں سے کوئی کسی قوم کا ہیرو ہوتا ہے تو دوسری کا دشمن ، ایک کی فتح ہوتی ہے تو دوسری کی شکست ۔ اس وجہ سے یہ دونوں قومیں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں کیونکہ ان میں ایک قوم اقلیت ہوگی اور دوسری اکثریت ۔ اگر ان دونوں قوموں کو ایک نظام  میں ڈھالا جاۓ گا تو ان میں بے چینی بڑھے گی اور آخر کار یہ نظام تباہ ہو جاۓ گا ۔ مسلمان اقلیت نہیں ہیں بلکہ وہ ایک الگ قوم ہیں اور انکیلئے علیحدہ وطن    ہونا چاہیے ۔ 




About the author

160