انسانی حقوق اور خطبہ حجتہ الوداع

Posted on at


انسانی حقوق کا تصور سب سے پہلے آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے نبی کریم حضرت محمدؐ نے دے دیا تھا۔ یہ  باقاعدہ انسانی حقوق کا چارٹر تھا۔ جس نے انسانی بنیادی حقوق کی بنیاد رکھی۔ جدید دور میں بھی انسانی حقوق کو کافی اہمیت دی گئی ہے۔ ہر ملک جمہوریت کی طرف رواں دواں ہوا اور دساتیر کو اپنانا شروع کر دیا۔ فرانس کی تقلید کرتے ہوئے ہر ملک کے دستور میں انسانی حقوق کا ایک باب شامل کیا جانے لگا۔ اسی طرح جب پاکستان نے 1958ء میں پہلا دستور لاگو کیا تو بنیادی حقوق کا ایک باب اس کا بنیادی حصہ بنا۔ اس دستور کی منسوخی کے بعد جب 1962ء میں نیا دستور بنایا گیا تو بنیادی حقوق کا باب اس میں شامل نہ تھا۔ عوام کے مطالبات کے پیش نظر دوسری ترمیم کے ذریعے اس باب کو شامل کیا گیا۔ 1973ء کا دستور قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ اس میں بھی بنیادی حقوق کا باب شامل کیا گیا۔ لہٰذا انسانی بنیادی حقوق عام طور ملکی دساتیر کے عطا کردہ ہوتے ہیں۔

حضورؐ نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر جو عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا تھا اس میں تمام انسانی بنیادی حقوق کا ایک خلاصہ موجود ہے۔ خطبہ حجتہ الوداع انسانی حقوق کا سب سے جامع اور بہترین دستور ہے۔ اس خطبے میں حضورؐ نے دنیا کے تمام انسانوں کو بلاتفریق رنگ نسل برابر قرار دیا۔خطبہ حجتہ الوداع میں حضور ؐ نے ایک انسان کی جان مال اور عزت اور جائیداد کو دوسرے انسان کے لیے حرام قرار دیا۔

یہی نہیں بلکہ اس خطبے میں عورتوں کے حقوق بھی واضع کیے گئے اور اس خطبے میں عورتوں کا ذکر واضع طور پر ملتا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ مردوں کا اپنی عورتوں اور عورتوں کا اپنے مردوں پر برابر حق ہے۔ اور فرمایا کی مردوں کو چاہیے کہ اپنی عورتوں کے حقوق کا خیال رکھیں اور ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں۔

حضورؐ نے اس خطبے میں وراثت میں حصہ حاصل کرنے کے حق کا بھی ذکر فرمایا اور فرمایا کی کسی کو وراثت میں اس کے جائز حق سے محروم نہ کیا جائے۔حضورؐ نے انتقام لینے کی بجائے تحمل اور بردباری سے کام لیتے ہوئے معاف کرنے کا درس دیا اور آپ ؐ نے خود اس کی مثال قائم کرتے ہوئے ایام جاہلیت میں قتل ہونے والے اپنے قریبی رشتہ دار عامر بن ربیعہ ابن حارث بن عبد المطلب کا خون معاف کردیا۔

غلام اس وقت معاشرے کا سب سے کمزور طبقہ تھے ۔ حضور ؐ نے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کا درس دیا اور فرمایا کہ ان کو وہی خوراک دو جو تم خود کھاتے ہو اور ان کو وہی لباس پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو۔ حضور ؐ نے غلاموں کے ساتھ سختی کرنے سے بھی منع فرمایا ۔ خطبہ حجتہ الوداع کے علاوہ بھی ایسے حوالہ جات ہیں  جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور ؐ غلاموں کے ساتھ نہ صرف نرمی اور حسن سلوک کی تلقین فرماتے تھے بلکہ کئی مواقع پر حضور ؐ نے غلاموں کو آزاد کرنے کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔

اس خطبے میں حضور ؐ نے حکمران اور رعایا کے حقوق پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ رعایا کے لیے لازم قرار دیا کہ جب تک حکمران اسلامی تعلیمات اور احکامات کے منافی کوئی حکم نہ دے  تو اس کی حکم عدولی نہ کی جائے ۔ وہاں حکمران کو بھی اس بات کا پابند قرار دیا کہ وہ اپنی رعایا کا خیال رکھے۔

حجتہ الوداع میں بیان کیے گئے حقو ق کے علاوہ  حضور بنی پاک ؐ کی سیرت پاک کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضورؐ نے دیگر کئی مواقع پر  ان حقوق کا ذکر کسی نہ کسی حوالے سے ضرور کیا جو اقوام متحدہ کے عالمگیر انسانی حقوق کے اعلان میں شامل ہیں۔



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160