قومی سلامتی کے تقاضے

Posted on at


پاکستان 1951سے سمراجی قوت امریکہ کے زیر تسلط  ہے تو اس نے شروع دن سے ہی ہمارے ملک کے حکمراںوں کو استعمال کرنا شروع کیا۔  ہمارے نااہل حکمرانوں کو ڈالر دیں کر خریدا اور انہیں استعمال کر کے ہمارے معاشی انتظامی نظام کو کمزور کیا۔ اور ہمارے تمام نفع بخش اداروں کو کمزور کر دیا۔  اور اداروں میں بیھٹے لوگوں کا چناؤ ایک کمزور سفارشی سیاسی نظام پر کیا گیا۔  ان لوگوں نے ہر قومی مسلے کو پس پشت ڈال کر اپنے ذاتی مفادات کو تریح دی، جو آج تک جاری و ساری ہے۔



اس کی تازہ مثال کچھ دن پہلے کی ہے جب میں ایک دوست کو ائرپورٹ لینے گیا جس فلائٹ سے اسے آنا تھا اس کا نمبر ٹی جی تھری فور نائن تھائی ایرلائن تھی۔ جب میں نے اپنے دوست کو ائر پورٹ ٹرمینل سے رویسو کیا تو اس نے بتایا ہمارے جہاز کے کچھ مسافر امیگریشن پروسس کے بغیر دوسرے راستے سے کچھ حکومتی اہلکاروں کے ہمراہ نکل گئے ہیں۔ حالانکہ کسی بھی ملک کے قانون قائدے کے مطابق کوئی بڑے سے بڑا عہدیدار کا امیگریشن پروسس کے عمل سے جانا ضروری ہوتا ہے۔  گویا ہمارے حکومتی اہلکار خود قانون کی بالادستی اپنے پلید پاؤں سے رودتے ہوئے اور حکومتی ریٹ کو چیلج کرتے ہیں اور ملک کے اندر غیر قانونی لوگوں کو داخل کرواتے ہیں جو بنیادی حکومتی دستاویزات سے مبرا ہوتے ہیں چائے وہ ملک کے اندر کسی بھی غیر قانونی کاروائی میں ملوث پایا جائے  اور بدقسمتی سے  ہمارے اداروں میں موجود   ایسے لوگوں کا احتساب کرنے کا کوئی باضابطہ  ادارہ نہیں  اور نہ ہی کوئی پوچھ کوچھ ۔ کچھ عرصہ پہلے اس طرح کے واقعے پر جو میڈیا پر نشر ہوا تھا وزیرداخلہ نے اس کیس کو سنجیدہ لیتے ہوئے  کاورائی اور تفتیش کرا کے کچھ غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا لیکن بدقماش اور بدعنوان حکومتی اہلکار اپنی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں جو چند کوڑیوں کے حوض اپنی قومی سلامتی کے سارے مملات کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔  ویسے بھی ہمارے ملک میں انسانیت کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ یہ افسران بالا کبھی بھارت سے پانی کے سودے کر دیتے ہیں اور اپنی مٹی کو بنجر ہونے کی سوچ ان کے اذہان سے نکل جاتی ہے۔



اس تکونی شکل نما میں اعلیٰ بیوروکیریٹ پہلے دوسرے جاگیردار اور تیسرے سرمایہ کار ہیں۔ ان انسانی نما درندوں نے  اس ملک میں انسانیت پر مظالم کی حدیں عبورکر دی ہیں۔  اور ریاستی مشینری کو مکمل طور پر بیھٹا دیا ہے۔ اس ملک میں جہاں سیکڑوں بچے تھر پارکر میں بھوک اور پیاس سے  مر رہے ہو اس وقت یہ لوگ اپنی سازشانہ فطرت سے اپنی اپنی گیم کھیلنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے ان بدعنوان لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور قومی سطح پر ایسے میرجعفروں سے تفتیش کر کے انہیں قرارواقعی سزا دلوائی جائے۔



لہو کو رنگ ،  گلابوں  کو  خار  کہتے ہیں


یہ  کیسے لوگ خزاں  کو  بہار  کہتے  ہیں


میں  کیسے اس گلستان کو پاسبان سمجھوں


جو   آندھیوں    کو   نسیم بہار  کہتے ہیں



160