دعا

Posted on at


دعا میں حدسےتجاوز کرنے کی گئی صورتیں ہیں،ایک یہ کہ دعا میں لفظی تکلفات قا فیہ وغیرہ کے اختیا ر کیے جائیں جسں سے خشوع و خضوع میں فرق پڑے، دوسرا یہ کہ دعا میں غیر ضروری قید یں، شرطیں لگائی جائیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مقفل نے دیکھا کہ ان کے صاجزادے اس طرح مانگ رہے ہیں کہ



" یا اللہ میں تجھ سے جنت میں سفید رنگ کا دائیں جانب والا محل طلب کرتا"


تو موصوف نے ان کو روکا اور فرمایا کہ دعا میں الیسی قید یں ،شرطیں لگانا حد سے تجاوز ہے جس کو قرآن وحدیث میں ممنوع قرار دیا گیا۔


تیری صورت حد سے تجاور کی یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لیے بددعا کرے یا الیسی چیز مانگے جو لوگوں کے لیے بد دعا کرے یا الیسی چیز مانگے جو لوگو ن کے لیے مغر ہو۔ اس کے بعد دوسری آیت میں فرمایا


"اللہ تعالی کو پکارو خوف اور امید کے ساتھ"



یعنی اس طرح کہ ایک طرف دعا کے ناقابل قبول ہونے کا خوف لگا ہو اور دوسری طرف اس کی رحمت سے پوری امید لگی ہوئی ہو۔



اس آیت میں دعا کے دو باطنی آداب بتائے گئے ہیں جن کا تعلق انسان کے دل سے ہے وہ یہ کہ دعا کرنے واے کے دل سے ہے وہ یہ کہ دعا کرنے واے کے دل میں اس کا خطرہ بھی ہونا چا ہیے کہ شاید میر ی دعا قبول نہ ہو اور امید بھی ہو نی چا ہیے کہ میری دعا قبول ہو گی۔



About the author

160