پاکستان میں فن تعمیر اور فنون

Posted on at


پاکستان  کے فن تعمیر کے پیچھے ہزاروں سالوں کی روایات کار فرما ہیں۔ یہاں کے لوگ ہمیشہ سے ماہر تعمیرات رہے ہیں۔ موہنجو داڑو اور ٹیکسلا کی شہری تنظیم و تقسیم خانقاہوں کی تعمیرات ، اسلامی دور کے باغات، محلات، قلعے ، مقبرے اور مسجدیں اور ان کے سجاوٹی نقش و نگار دیکھ کر ان لو گوں کی تعمیرات میں فنی مہارت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ موہنجو داڑو اور ٹیکسلا کے شہر ، تخت بھائی اور جولیاں کی خانقاہیں، اٹک اور رہتاس کے قلعے، لاہور کا قلعہ اور باغات ، لاہور اور ٹھٹھہ کی بادشاہی مساجد، شاہ رکن عالم (ملتان)، جام نظام الدین (مکلی) اور جہانگیر کا مقبرہ ( لاہور) ہمارے فن تعمیر کے بہترین نمونے ہیں۔

فنون کے حوالے سے بات کی جائے تو کئی فنون میں اہل پاکستان نے کمال حاصل کر رکھا ہے۔ دھاتوں سے مختلف قسم کے زیورات۔ برتن اور آلات بنانے کا فن اس خطے میں رہنے والوں نے پانچ چھ ہزار پہلے سیکھ لیا تھا۔ البتہ لوہے کا استعمال بعد میں 1000 قبل مسیح شروع ہوا۔ موہنجو داڑو کے لوگ کانسی کو پگھلا کر ڈھلائی کے فن، پتھر تراش کر مختلف اشیاء بنانے اور مہریں کندہ کرنے کے فن سے خوب واقف تھے۔ سن عیسویں کی پہلی پانچ صدیوں میں شمالی پنجاب اور  سرحد میں  سنگ تراشی کا فن اپنے انتہائی عروج پر تھا۔یہ فن بدھ مت کے زمانے میں مغربی ایشائی اور یونانی اثرات کا حامل ہے۔ اب بھی اس علاقے میں ایسے لوگ موجود ہیں جو سنگ تراشی کا کام بڑے اچھے طریقے سے کر لیتےہیں۔

اسلام کا عمل دخل بڑھا تو فن کے بارے میں ترجیحات، میلانات اور رجحانات بھی بدلنے لگے۔ بت تراشی کی جگہ عمارتی سنگ تراشی نے لے لی۔ چوکنڈی اور مکلی ( سندھ) کے بے شمار مقبرے اس فن کے بہترین نمونے ہیں۔ مسلمانوں بالخصوص مغلوں نے ان علاقوں پر جن پر آج پاکستان مشتمل ہے اپنی عمارتوں کی بیرونی سطع  کو روشن ٹائیلوں اور سجاوٹی اینٹوں سے سجایا ۔ عمارتوں کے اندرونی حصوں کو تصویروں اور بتوں سے سجانے کی جائے  دیواروں کو رنگوں اور بیل بوٹے والے پچیدہ ڈیزائنوں سے آراستہ کیا۔

ہمارے علاقے میں رہنے والے قدیم زمانے سے تصویر کشی کے فن سے واقف چلے آرہے ہیں۔ مغلیہ دور میں تو چھوٹی تصویریں بنانے کا فن انتہائی عروج  پر تھا اور اس کے مشہور مراکز میں سے ایک لاہور بھی تھا۔ عہد مغلیہ کے زوال کے بعد سکھوں کے دور میں یہ فن پہاڑی علاقوں تک سمٹ کر  رہ گیا۔ موجودہ دور میں کئی فن کا ر اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں عبدالرحمٰن چغتائی کی کوششوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ دیگر چھوٹے فنون مثال کے طور پر زیورات سازی، سکہ بازی اور قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے زیورات بنانے میں ہمارے فن کار ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔پشاور، حیدرآباد، لاہور، ٹیکسلا اور کراچی کے عجائب گھروں میں رکھے ہوئے زیورات اور مہریں ان کے فن کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں لکڑی پر کندہ کاری کا کام قدیم زمانے سے اب تک مشہور ہے۔ اس کے علاوہ فرنیچر پر کندہ کاری  ، پچی کاری اور لاکھ کا کام آج بھی ترقی کر رہا ہے۔

 

 

 

 



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160