ابن یونس ۔ عربوں کے سب سے بڑے ماہر فلکیات

Posted on at


ابن یونس کا پورا نام ابوالحسن علی بن عبدالرحمان بن احمد بن یونس الصَدَ فی المصری ہے۔ وہ دسویں صدی عیسوٰی کے مشہور ترین ماہر فلکیات، ریاضی دان اور ماہر علم نجوم تھے۔


ایک روایت کے مطابق ابن یونس ۹۵۵ء میں قاہرہ میں پیدا ہوئے جو ان دنوں فسطاط کہلاتا تھا۔ وہ ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے پردادا یونس، امام شافعیؒ کے ساتھیوں میں سے تھے۔ ان کے والد عبدالرحمان بھی مشہور تاریخ دان اور عالم دین تھے۔ علم دوست گھرانے سے تعلق کے باعث ابن یونس بچپن ہی سے علم حاصل کرنے کے شوقین تھے۔ صرف ۱۱ برس کے عمر میں وہ علمِ فلکیات میں دلچسپی لینے لگے تھے۔


خلیفہ المعز نے فسطاط کے قریب ایک نئے شہر کی بنیاد ڈالی۔ المُعز علم نجوم پر یقین رکھتا تھا۔ اس نے ایک ماہر نجوم کو قریبی پہاڑی پر ٹھرایا کہ جب سعد (مبارک) سیارہ طلوع ہو تو وہ رسی کھینچ دے جس کے ساتھ بندھی گھنٹیاں بجیں گی اور شاہی محل کی بنیادیں رکھ دی جا ئیں گی۔ اتفاق سے ایک کوارسی میں اُلجھ گیا اور گھنٹیاں بج اٹھیں تو مزدور بنیادیں ڈالنے لگے۔ دور سے نجومی نے دیکھا تو وہ القاہر (مریخ ، مریخ) پکارتا ڈوڑا مگر جب وہاں پہنچا تو بنیادیں رکھی جا چکی تھیں۔ نجومیوں کے بقول مریخ القاہر (قہروالا) نحس سیارہ ہے۔ خلیفہ المعز نے مریخ کے طلوع میں بھی ایک نیک شگون نکال لیا۔ اس طرح نئے شہر کا نام القا ہرہ المعزیہ یا مصر القاہر ہو گیا جو بعد میں صرف قاہرہ کہلانے لگا۔ ابن یونس اس تقریب میں موجود تھے جس میں فسطاط کا نام بدل کر قاہرہ رکھا گیا۔


فاطمی خلیفہ العزیز کے زمانے میں ابن یونس نے فلکیاتی مشاہدات کا آغاز کیا۔ اس کے بعد الحاکم بامراللہ خلیفہ بنا تو ابن یونس شاہی رصد گاہ سے منسلک ہوئے اور فلکیاتی مشاہدات میں حصہ لینے لگے۔ ان کے مشاہدات ۱۰۰۳ء تک جاری رہے۔


ابن یونس کا سب سے بڑا کارنامہ سیاروں، ستاروں کے چارٹ، الزیج الکبیر الحاکمی کی تیاری ہے۔ قرون وسطیٰ کے اسلامی دور میں تقریباً ۲۰۰ زیجیں مرتب ہوئیں۔ ان سب میں ان کی زیج سب سے زیادہ مفید اور میعاری مانی جاتی ہے۔ اس زیج کے ۸۱ ابواب ہیں۔ اب اس کے صرف وہ ابواب باقی ہیں جو لائیڈن اور آکسفورڈ کے کتب خانوں میں موجود ہیں اور تقریباً ۳۰۰ صفحات پر مشتمل ہیں۔ پیرس میں ایک ایسا نسخہ بھی موجود ہے جس میں زیج کے ایک حصے کا خلاصہ کسی کمنام شخص نے کیا ہے۔ اس نسخے میں باب ۴۵ سے ۸۱ تک کے ابواب کا خلاصہ درج ہے۔


ابن یونس نے چاند گرہین کے بارے میں ٹھیک ٹھیک پیش گوئیاں کی تھیں۔ اپنی زیج میں انھوں نے تیس گرہنوں کا ذکر کیا ہے۔ ان اعداد و شمار کی مدد سے سائمن نیو کومب نے چاند کے مدار کے بارے میں تحقیق کی۔ ایک اور مغربی ماہر فلکیات آرنیوٹن نے بھی ان سے فائدہ اٹھایا ہے۔


زیج الکبیر الحاکمی کا سب سے طویل باب جنتریوں یا تقویموں پر مشتمل ہے۔ اس میں اسلامی ، مصری ، شامی اور فارسی تقیوم زیر بحث آئی ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی تفصیلات درج ہیں جن کی مدد سے ایک تقیوم کو دوسری میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیئے وسیع جولیں دی گئی ہیں۔ کچھ اور جدولوں کے ذریعے آنے والے مذہبی تہواروں کے بارے میں جانا جا سکتا ہے۔


ابن یونس کی تصانیف


کتاب غایتہ الانتقاع۔ اس کے متعدد قلمی نسخے قاہرہ اور ڈبلن (آئرلینڈ) کے کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔


۔کتاب الحبیب۔ اس کے نسخے برلن اور دمشق کے مرکزی کتب خانے میں موجود ہیں


۔کتاب الظل۔ اس کا واحد قلمی نسخہ برلن میں محفوظ ہے۔


 کتاب المیل۔ اس کا مخطوطہ بھی برلن میں ہے۔


 کتاب التعدیل الحکم۔ اس کے نسخے قاہرہ اور برٹش میوزم میں ہیں۔


 کتاب بلوغ۔ اس کے قلمی نسخے قاہرہ کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔


 شمسی گھڑی پر ایک مختصر رسالہ کا قلمی نسخہ بیروت کی لائبریری میں موجود ہے۔


اپنے فلکی مشاہدات اور اپنے سے پہلے ماہرین فلکیات کے مشاہدات کی تصدیق اور اصلاح کے لیئے ابن یونس کو مقطم (قاہرہ) کی اعلیٰ سازو سامان سے آراستہ رصد گاہ سے بہت مدد ملی۔ یہ رصد گاہ فاطمی خلفاء کی علم فلکیات سے نہایت کہری دلچسپی کو ظاہر کرتی تھی۔


ابن یونس کی چاند پر گراں قدر تحقیقات کے اعتراف میں چاند پر ایک گڑھا کریٹر ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ ابن یونس نامی یہ کریڑچاند کے بالکل دائیں جانب واقع ہے اور یہ اس وقت نمایاں ہوتا ہے جب اس کے کنارے سورج کی پوری روشنی میں ہوتے ہیں۔


 



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160