آج صبح جب میں گھر سے باہر نکلا تو موسم اتنا حسین کہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ موسم کی اگر منظر کشی کی جائے تو اتنا ہی کہوں گا کہ پرندے چحچارہے تھے، نہر کے کنارے مختلف قسم کے چرند و پرند دیکھائی دے رہے تھےاور ہلکی ہلکی سورج کی روشنی مشرق سے نکل رہی تھی۔ پھولوں کی کلیوں پر شبنم کے قطرے ابھی موجود تھے اور وہ ایسے مہک رہے تھے جیسے کسی نے ان کو گہری نید سے جگا دیا ہو۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ دیکھائی دے رہا تھا اور نہر کے پانی کا شور اُسکو اور دوبالا کر رہا تھا۔
اتنا حسین موسم میں نے کافی عرصے سے نہیں دیکھا تھا، میں کافی عرصے سے صبح کے وقت گھر سے نہیں نکلا تھا کیونکہ میرا ایک دوست تھا جس سے میری بہت ذیادہ دوستی ہوتی تھی اور کافی وقت سے وہ محجھے چھوڑکر بیرون ملک چلا گیا ہے۔ محجھے اُسکی یاد اکژ آتی ہے جب بھی میں کسی ایسے منظر کو دیکھتا ہوں۔
ہماری بہت گہری دوستی تھی اور چند گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے اُسے ملک سے باہر جانا پڑا تھا۔ جب وہ گھر ہوتا تھا تو ہم دونوں صبح سویرے گھر سے باہے جاتے تھے اور خوب مزے کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ میں جب بھی کسی ایسے منظر کو دیکھتا ہوں تو محجھے اُس کی یاد ستاتی ہے کہ کبھی وہ بھی میرےساتھ ہوتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ میں گھر سے باہر ہی نہیں نکلتا تھا۔ آج بھی محجھے اُس کی یاد نے بُری طرح ستایا اور میں اچانک بولنے لگا
آئے موسم رنگیلے سوہانے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو چھٹی لیکے آجا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔