بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار

Posted on at


بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار


ہمارے معاشرے کی تنزلی اور بے شمار برائیوں نے ہمارے ماحول پر بھی اپنے منفی نقوش چھوڑ دیئے  ہماری تعام عادات و اطوار میں پہلے سے زیادہ سختی، مشقت اور لب و لہجہ میں ادب ، شائستگی کی بجائے غیر تہذیبی، بے ادبی ہے اور بے شمار دوسرے منفی پہلو ہیں جس سے نہ صرف ہم بلکہ ہمارا ماحول ، ہمارے آنے والی نسلیں سب ہی متاثر ہیں۔ اس کا ایک مثال اس طرح دی جاسکتی ہے آج سے 30 یا 40 سال پہلے والے لوگ ہم سے زیادہ باادب، شائستہ، تہذیب یافتہ اور دور اندیش تھے۔ ان کا دور محبت ، خلوص اور امن کا گہورہ تھے۔ وہ اپنے ماحول کو تمام معاشرتی بیماریوں سے پاک رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور اور اپنا ماحول صاف ستھرا رکھنے کی۔  اس کے برعکس ہمارا ماحول کو جھوٹ، چوری، بے امنی، دہشت گردی، منشیات کے پھیلاؤ، اور تشدد جیسی بے شمار دوسری معاشرتی بیمایوں نے آلودہ کر دیا ہے۔  ہمارے آنے والی نسلوں کو تبائی کے دھانے پر کھڑا کر دیا ہے۔  یہ ساری بیماریاں ہمیں اور ہمارے بچوں کو احساس ذمہ داریوں سے دور کر دیتی ہیں۔ ہماری عادات و اطوار ہمارے ماحول اور ہمارے قوم اور اپنے لئے ،کسی طور پر کارآمد نہیں رہتے۔   



گو کہ ہمارے معاشرے میں کچھ ذی فہم اور عقل مند لوگ ان برائیوں کے خاتمہ کے مختلف راستے اور ڈھنگ کی تلاش میں رہتے ہیں اور تشدد اور سختی سے اپنے بچوں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں جو کسی طور پر بھی ٹھیک نہیں۔ علم و دانش کا تقاضا  تو یہ بنتا ہے کہ بچوں کی نفسیات دیکھ کر اس کی گزرنے والی زندگی کے چال چلن اور ان کمزوریوں کو ، منفی رحجانات کو دیکھا جائے جس سے بچے کی زندگی میں روشنی کی بجائے اندھیرے ہیں۔ اور جدھر بھی اس کی خرابیاں نظر آئے ، اٹھنے ، بیٹھنے، کھانے پینے، چال چلن، کا باغور مشاہدہ کر کے ان کمزوریوں کو نظر انداز کرنے کی بجائے سامنے لانا چاہیئے۔  یہ بھی دیکھنا چاہیئے اس کے کن لوگوں کے میل جول ہے اس کے دوست یار کون ہیں کیسے لوگ ہیں رویے کیسے ہیں اور معاشرے میں انھیں کس نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ 


ہماری ایک سب سے بڑی کمزوری اپنے بچوں کے مطالق اپنی معاشی حالات کو اس کے سامنے پیش کر دیتے ہیں جو بچے کو مثبت سرگرمیوں میں جانے کی بجائے کم عمری میں ہی اپنے معاشی حالات کی فکر اور ذمہ داری میں ڈال دیتے ہیں جو اسے اعلیٰ تعلیم یافتہ بنانے کی بجائے تعلیم کو ادھورہ چھوڑ کر اپنے معاشی حالت کو درستی کی فکر میں لگ جاتا ہے جو کسی صورت بھی قوم اور ملک کی تعمیر کے لئے اپنے خاندان کے لئے سودمند نہیں ہے۔



اپنے زندگی کے تجربات کی روشنی کا نچوڑ اور اپنے بچوں تک پہچانا سب سے مفید درس ہے۔  بچوں کو اپنی زندگی میں پیش آنے والے تلخ واقعات اور تجربات بتانا چائیے اور ان کا لائہ عمل بھی جو اس کا عملی زندگی میں کام آتے ہیں۔


بچوں کی زندگی میں سب سے اہم کردار معلم کا بھی جسے کسی طور نظرانداز نہیں کرنا چائیے، بچوں کی نگرانی میں ایک پہلو والدین کو بچوں کے سکول کا بھی چکر لگانا چائیے،بچوں کی زندگی میں اساتذہ کے راویوں کا بڑا اثر ہے، اور اعتماد میں کمی یا اضافہ استاد کے رویوں پر منحصر کرتا ہے۔ ہمارے ترقی پذیر معاشروں میں سکولوں کے اندر بھی بچوں کی تعلیم و تربیت میں استاتذہ کے رویوں میں منفی پہلو زیادہ نظر آتا ہے جسے بچوں کے والدین گائے بہ گائے سکولوں کا دورہ کر کے استاد کے ساتھ معاونت کر کے اس سنجیدہ مسلے کو حل کر سکتے ہیں اور بچوں کے مستقبل کو روشن اور باوقار بنا سکتے ہیں۔



بچوں کی زندگیاں سدھارنے کاواحد راستہ اپنا علم و عمل ، اور کردار جو تضاد سے مبرا ہو، اور اچھے کام میں حوصلہ افزائی اور برے کام کی حوصلہ شکنی ، جو بچوں کا اچھے برے کام کی  پہچان کرادیتے ہیں ۔ والد کا کردار بچوں کو عملی زندگی کے پیچ و خم اور نظم وضبط اورمالی معاونت اور والدہ کی تربیت بچوں کو معاشرے میں تہذیب و تمدن، اعلیٰ اخلاق و کردار سکھاتی ہے۔  دونوں کا کردار بچوں کی تعلیم و تربیت میں لازم و ملزوم ہے۔


یقیناً والدین ان سارے سنجیدہ پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر اپنے بچوں کو معاشرے کا ایک بہترین ، باوقارفرد اور قوم و ملک کو معمار بناسکتے ہیں۔


 



160