بد لتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے

Posted on at


یہ حقیقت ہے کہ کا ئنات کا ذرہ ذرہ تغیر پذیر ہے۔ اگر آپ کائنات کے اسرار اور رموز پر نظر ڈالیں۔ تو یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ قانون فطرت بدلتا رہتا ہے۔ کبھی موسم گرما ہے ، کبھی خزاں ، کبھی موسم سرما ہے ، تو کبھی بہار ، کبھی دن کا اجالا ہے ، تو کبھی رات کی تاریکی۔ مہینے کہ پہلی تاریخ کا چاند مختصر شکل کا ہوتا ہے لیکن چاند بتدریج اپنی شکل تبدیل کرتا رہتا ہے اور آخر چودھویں کا چاند اپنی پوری تا بناکی کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بعد چاند پھر گھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس دھرتی پر بھی

تغیرات آتے رہتے ہیں۔ کبھی جہاں لق و دق صحرا ہوتے ہیں اب وہاں سبزہ ہی سبزہ ہے۔ دریا اپنی گزر گاہیں بدلتے رہتے ہیں۔ آپ ایک پودا اپنے گھر میں لگاتے ہیں پہلے کہ نہایت چھوٹا سا ہوتا ہے آہستہ آہستہ بڑھنا شروع کردیتا ہے اور آخر کار ایک تناور درخت بن جاتا ہے۔ غرض اس کائنات کے ذرہ ذرہ میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔

یہی حال انسانی زندگی کا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب انسان غیر مہذب تھا۔ اس کے پاس رہنے کے لئے مکان نہ تھا، وہ غاروں میں زندگی بسر کرتا تھا۔ درختوں کے پتوں یا جانورں کی کھالوں سے ستر پوشی کرتا تھا۔ وہ آگ جلانے کے فن سے بھی نا آشنا تھا۔ پھر پتھر رگڑ کر آگ پیدا کی۔ غاروں کی بجائے گھاس پھوس کی جھونپڑیاں بننے لگیں۔ آہستہ آہستہ انسان مہذب بنتا گیا۔ اب اسی انسان نے چاند کو تسغیر کر لیا ہے۔

انسانی زندگی میں مختلف موڑ آتے رہتے ہیں۔ کبھی انسان فارغ البال ہتا ہے تو کبھی مفلوک الحال ، کبھی وہ عیش و آرام کی زندگی بسر کرتا ہے تو کبھی اسے اپنی زندگی کانٹوں کی سیج معلوم ہوتا ہے۔ یہ ایک فطری فعل ہے۔ مفکرین اس حقیقت سے متفق ہیں کہ زمانے کا رنگ بھی ایک جیسا نہیں رہتا اس میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔

دنیا کے مختلف اقوام کی تاریخ پر نظر ڈالیئے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ نہ تو کبھی ہمیشہ عروج پر رہتی ہیں اور نہ ہی ان پر ہمیشہ زوال رہتا ہے۔ ہر کمال را زوال ، ہر زوال را کمال، کے مصداق حالت تغیر پذیر رہتے ہیں۔ کبھی کوئی قوم قہر ذلت میں گری ہوئی ہے ، اسے اپنی عزت اور ساکھ کا بھی خیال نہیں ہوتا۔ پھر یہ قوم اپنے آپ کو سنبھال لیتی ہے۔ اور اپنا مقدر بنانے کی کوشش کرتی ہے اور پیم کوششوں سے وہ اقوام میں اپنا جائز مقام پیدا کرتی ہے۔

تاریخ میں بڑے بڑے جابر حکمرانوں کے قصے ملتے ہیں کہ جب ان کا عروج تھا تو ایک زمانہ ان سے ڈرتا تھا۔ لیکن جب ان کو زوال آیا تو نہایت عبرتناک۔ تاریخ اسلام میں موسٰی بن نصیر کا نام سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے۔ اس نے اپنے زمانے میں افریقہ فتح کر کے اسلامی سلطنت میں شامل کرلیا لیکن سیلمان عبدالمالک نے جب اسے معزول کردیا تو یہ عظیم فاتح روٹی کے چند ٹکڑوں کے لئے بھی مجبور ہوگیا۔ اس چراخ کج رفتار نے اس کو دمشق کی گلیوں میں بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ اسی طرح عظیم فاتحین طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم کو بھی بہت سے مصا ئب برداشت کرنے پڑے ، حالنکہ یہی وہ فاتحین تھے جن کے لئے تاریخ نے عقیدت و سعادت کے ایوان کھولے تھے۔ عوام نے انہیں قلب و نظر میں بسایا تھا۔

مغلوں نے ہندوستان میں صدیوں تک حکومت کی لیکن جب زمانے نے اپنا رنگ بدلا تو ان کی حکومت لال قلعہ کے اندر تک رہ گئی۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی نے مغلوں کی برائے نام حکمرانی کو بھی ختم کر دیا۔ آخری فرما نروا بہادر شاہ ظفر کو رنگوں بھیج دیا گیا جہاں ہو کسمپری کے عالم میں راہی ملک عدم ہوا۔ وہ مغل شہزادیاں جنہوں نے گھر کی دہلیز سے باہر قدم نہ نکالا تھا اب پیدل سفر کر رہی تھیں کہ جائے امن مل سکے۔ یہ زمانے کے رنگ ہیں جو گرگٹ کی طرح بدلتے رہتے ہیں۔ اور آئندہ بھی بدلتے رہیں گے۔ کیونکہ آسمان ہمیشہ رنگ بدلتا رہتا ہے اور یہ ایک قانون فطرت بھی ہے۔ 



About the author

muhammad-haneef-khan

I am Muhammad Haneef Khan I am Administration Officer in Pakistan Public School & College, K.T.S, Haripur.

Subscribe 0
160