ادھورا خواب ۲

Posted on at


جیسا کے میں  آپ کو پہلے بتا چکا ہوں اپنے ریل کے سفر کے بارے میں اس  میں سے کچھ بات رہتی ہے۔تو وہ کچھ یوں ہے۔کہ جیسے ہی ریل آگے جاتی ہے تو آگے ریل گاڑی ایک پل سے گزرنے لگی۔دونوں اطراف میں لوگ چھوٹے،بڑے سب ہی اپنے پیارے چہروں کے ساتھ ہمارا استقبال کر رہے تھے۔گاڑی بہت ہی تیزی سے اس کے پاس سے گزری ان میں بہت سے چہرے بہت سے چھوٹے بچوں کے تھے۔ان میں سے کچھ بہت ہی چھوٹے تھے۔جنھوں نے پتھروں کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ایسا محسوس ہوا تھا کہ جیسے ہم سب شیطان ہیں اور یہ سب ہمیں پتھر مار کے صواب حاصل کر رہے ہیں۔

اس وقت ہم سب کو بہت شرمندگی محسوس ہویٴ تاہم تھوڑی دیر میں ساری شرمندگی کافور ہو۔کیونکہ میں اکیلا شیطان نہیں تھا بلکے تمام سوار ہی اس میں شامل تھے۔تاہم اچانک نظر ایک دوشیزہ پر پڑی جسنے شرماتے شرماتے اپنا دوپٹہ ٹھیک کیا۔اور اندر کی طرف بھاگی۔خیر ہم نے بھی ہلکی سی مسکراہٹ سے اپنی نظروں کا رخ دوسری جانب کر لیا۔

ٹرین منزولوں پر منزلیں مارتی اپنی منزل مقصود کی جانب بڑھ رہی تھی استقبال کے سلسلے جاری تھے کہیں سے ہاتھ ہلا رہے تھے تو کہیں سی پتھر آرہے تھے۔تو کہیں سے مسکراہٹیں ہمارے سفر کی ہمسفر بن رہی تھیں۔

چلیےٴ آپ کو ایک واقع سناتا ہوں جو کے میرے ساتھ پیش آیا،یہ واقع آج سے تقریباً ۷ سال پہلے کا ہے میں اپنی فیملی کے ساتھ سفر کر رہا تھا مھجے بچپن سے ہی دوردراز کے علاقوں کا سفر کرنے کا بہت ہی شوق تھا جو کہ ابھی تک پورا نہیں ہوا تھا  تاہم امید پہ دنیا ہے۔تاہم میں بات کر رہا تھا کہ میں فیملی کے ساتھ سفر کر رہا تھا تو اپنی عادت کے باعث میں کھڑکی کے ساتھ سالی سیٹ پہ بیٹھ گیا۔اس وقت میری عمر ۸ یا ۹ سال تھی ٹرین ایک جگہ سے مڑرہی تھی میں اس منظر کو دیکھنے کے لیے سر باہر نکالا تو میرا سر کھڑکی سے باہر نکل گیا۔میرا چہڑا چاروں اطراف مڑ سکتا تھا جو واقع میرے ساتھ پیش آنے والا تھا اسکی خبر کسی کو نہیں تھی۔جب میں اپنا سرنکالنے والا تھا تو میرا سر آٹک گیا میں بہت سی کوشش کی مگر نکام رہا

اسی ثنا میں میرے پاس میرے والد میرے طرف متوجہ ہوےٴ مگر انسے بھی کچھ نہیں ہورہا تھا والد صاحب میرا سر باہر نکالنے میں کامیاب ہوگےٴ اور میرا خواب نظارے دیکھنے کا آدھورا ہی رہ گیا۔

میرے خیال میں آج کے لیے ایک واقع کافی ہے۔کیونکہ اسٹیشن آچکا ہے اور بہت سے لوگ میرے منتظر ہیں۔زنگی رہی تو باقی کے واقعات کا تزکرہ پھر کبھی ہوگا۔



About the author

160