سن ستر کی دہائی ، صنعت کا ناقابل تلافی نقصان

Posted on at


سن ستر کی دہائی ، صنعت کا ناقابل تلافی نقصان


مشرقی پاکستان کی علیحدگی بلاشبہ وطن عزیز کا بہت بڑا ناقابل تلافی نقصان تھا۔


لیکن جب 1972 میں جب ملکی مملات تھوڑے سنبھلنے لگے اور ملک جمہوریت کی پٹری پر چل پڑا تو اس وقت کی حکمران جماعت نے اپنے منشور کے مطابق عام آدمی  ، مزدور اور محنت کش کو ان کے حقوق دینے کی خاطر ملک کی تمام نجی سطح پر چلنے والے اداریں اور صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کا فیصلہ کیا، 1972 سے 1976 تک تقریبا سارے نجی صنعتی اداروں اور بنکوں کو قومی تحویل میں لے لیا گیا ۔ گو کہ اس کامقصد محنت کش کو فائدہ پنچہنا تھالیکن اس تصویر کا دورسرا رخ بہت ہی عبرت ناک تھا اور   جس کی وجہ سے ملک معاشی بحران کا شکار ہو گیا اور ایسے گرداب میں پھنس گیا جس کی وجہ سے ملک آج تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں سکا ملک کے اندر سے سرمایہ اور سرمایہ کاری ختم ہو گئی،  یاد رہے اس سے پہلے والی حکومتوں نے اور خصوصاً ایوب خان کی حکومت نے ملک کے اندر صنعتوں کے قیام کے لئے بڑی محنت کی تھی ، پاکستان سٹیل ملز، ٹیکسٹائل ملز، گھی انڈسریز، واہ میں قائم ہیوی ڈیوٹی انڈیسٹریز، سب ہی ایوب خان دور کی محنت کی ثمرات ہیں ۔



ذولفقار علی بھٹو نے عام آدمی اور محنت کش کے حقوق کو تحفظ دینے کے لئے بہت بڑا قدم اٹھایا لیکن یہ حکومتی پالیسی بالکل ناکام ہو گئی، صنعت کار کی خون پسینہ سے بنی ہوئی صنعت میں نااہل انتظامیہ اور حکومتی ارکان اسمبلیوں کے چہتے لوگوں کا کھپا دیا گیا۔  ہر صنعت میں لیبر یونین بن گئی،  مزوروں نے سمجھا کہ انقلاب آ گیا اور انہوں نے دل لگا کر کام کرنا چھوڑ دیا۔ ذرا ذرا سی باتوں پر ہڑتالیں ہو جاتی۔  مل انتظامیہ اور دفتروں کا گھیراؤ کر لیتے۔ ایک مزدور کے صرف میڈیکل الاؤنس ہزاروں میں تھی جو اس وقت کے لحاظ سے بڑی رقم تھی عجیب ہی نفسا نفسی کا ماحول بن گیا۔



 


۔  مختصر یہ کہ قومی تحویل کی پالیسی نے ملک کا اندر  کارخانوں کوبڑا نقصان دیا ، ملک کے اندرمذید سرمایہ کاری بھی رک گئی۔  اس سے  برے تجربے کی وجہ سے  ملک کی تعمیر و ترقی رک گئی  اور ملک کو کھربوں کا نقصان ہوا جس سے ملک کے اندر کئ رفاحی اداریں ، سکول اور ہسپتال چلائے جا سکتے تھے۔ ایک وقت تھا پاکستان اپنے پھیلتے ہوئے کارخانوں پر نازاں تھا اور آج بیمار صنعتوں کا ہسپتال بن گیا ہے  


 



160