(کتنی دوا دی جائے ؟ (حصہ اول

Posted on at


بچے کو دوا دینی ہے؟ کوئی مسئلہ ہی نہیں! کچن میں جائیں ایک چمچہ اٹھا لائیں اور پلا دیں دوا۔ آپ یہی کرتے ہیں نا؟ لیکن ماہرین صحت کہتے ہیں کہ یہ بالکل بھی درست طریقہ نہیں۔ کورنیل یونیورسٹی (امریکہ) میں کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو لوگ درمیانی سائز کے کھانے کا چمچ استعمال کرتے ہیں انہیں دوا کی درکار خوراک نہیں ملی۔



اسی طرح جو افراد بڑا چمچ استعمال کرتے ہیں وہ دوا کی زائد مقدار لے لیتے ہیں۔ یہ طریقہ اس صورت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے جب آپ دن میں دو سے تین مرتبہ اس طرح دوا لیتے ہیں۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ اس موقع پر والدین ڈبے یا نسخے پر موجود دوا کی مقدار، عمر کے حساب سے بچوں کو نہیں دیتے۔ اس موقع پر وہ اپنی ڈاکٹری کرتے ہیں، ان کے خیال میں بچہ چھوٹا ہے اور اسے دوا بھی کم دینی چاہیے ، ڈبے پر اگر ایک چائے کا چمچ درج ہو تو آدھا چائے کا چمچ دیا جاتا ہے جبکہ وہ نہیں جانتے کہ اس طرح دوا کوئی اثر نہیں دکھائے گی۔



ڈبے میں اگر دوا دینے کے لیے کپ، چمچ یا سرنج موجود ہو تو اس کی مدد سے دوا دیں۔ بعض ڈاکٹر بھی نسخے پر مائع دوا لکھنے کی تعداد تو لکھ دیتے ہیں لیکن ساتھ صرف ایک یا دو چمچ درج کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ خود یہ سوچ لیتے ہیں کہ اگر بچے کو دوا دینی ہے تو چھوٹا چمچ اور بڑوں کے لیے بڑا چمچ استعمال کرنے ہے۔



ساتھ ہی دوا کے ڈبے پر یہ درج ہدایات اور مقدار کے متعلق دی گئیں ہدایات بھی پڑھیں۔ دوا مائع ہو یا ٹھوس شفاءیابی اس کی درست مقدار سے حاصل کی جاتی ہے۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ جب ایسی صورت حال درپیش ہو تو ڈاکٹر سے معلومات حاصل کر لی جائیں۔



About the author

shakirjan

i am shakir.i have done BS (HONORS) in chemistry from pakistan.i know english,pashto and urdu.I love to write blogs.

Subscribe 0
160