خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے اور اس کا شرف اس کے عقل اور شعور کی وجہ سے جس کا مظاہرہ وہ اپنی زبان سے کرتاہے انسان کی عقل اور شعور علم کے بغیر نہیں نکھر سکتے۔اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ انسان جو جنگل میں پیدا ہوا اورپرورش پائیوہ جنگلی ماحولمیں رہ کر حیوان جیسا ہو جائے گا۔جذبات واحساسات کا ایسے انسان سے دور تک کا تعلق نہیں رکھتا۔یہ علم ہی ہے جو اسے انسانیت کی اصل حقیقت سے روشناس کراتاہے۔یعنی آدمی کو انسان بنانے میں تعلیم اہم کردارادا کرتی ہے۔اب علم محض کتابوں کو پڑھنے سے نہیںآتا اس کیلئے کسی اور ذرائع کی مدد لینی ہے۔
ہمارا نظام تعلیم کسی بھی صورت آدمی کو انسان بنانے کیلئے اپنا کردار ادانہیں کررہا۔ہمارا نظام تعلیم انگریزوںکا دیا ہوا ہے انگریزوں نے ہمارے خطے پر بہت عرصہ حکومت کی وہ ہمیں اپنا غلام سمجھتے تھے اور جب انہوں نے اس علاقہ کو چھوڑا توجاتے جاتے ایسا نظام تعلیم دے گئے جس کو لاگو کرنے سے صرف غلامانہ ذہنیت ہو سکتی تھی۔چنانچہ انگریزگیا تو ہمارے آنکھوںوالے اندھے دانشوروں نے ان کے نظام تعلیم کو دوسرے تمام نظاموں کی طرح رائج کیا۔وہ آج 67سال گزرنے کے با وجود ہم اس بوسیدہ نظام تعلیم کی لپیٹ میں ہیں جو کلرک پیدا کر رہا ہے ملکی ترقی نہیں۔
ہمارے طریقہ کار کی ایک بہت بڑی خامی عموماً تین گھنٹوں میں پورے سال کا پڑھاہوا بیان کرناہے۔اور پھر ایک سوال کے تین تین اجزأ ہوتے ہیں۔ایسا طالب علم جس نے گہرائی میں جا کے تیاری کی ہواور وسیح مطالعہ کیا ہووہ تین گھنٹے میں اپنا نقطہ نظر بیان نہیں کرسکتا اورجوطالب علم گیس لےکرچند سوالات کورت لیتے ہےوہ اسانی سےکامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔العرض تعیلم کےمعاملےمیں کئےگئے تمام اقدامت ادھورےاورنا کاراہیں ان کی دوبارہ جانچ پڑتاج ہونی چایئے تاکہ ہماراطالب علم صرف امتحان پاس کرنے کی بجائے عملی میں بھی کامیاب ہو اس سلسے میں ملک کی دانشوروں اورماہرین تعیلم اگےآناچایئے یہ اقدامت بنیادی سطح کے سکولوں میں پیہلے کرنے چایئے کیونکہ وہ بنیادی تعیلم ہےجس پرتعیلم کی بقیہ عمارت کو کھڑا ہونا ہوتا ہے۔