موسم بہار

Posted on at


فطرت کا اپنا نظام ہے، موسم کا الٹ پھیر، خوشی اور غم کا دائمی ساتھ اور بہار اور خزاں کا ایک دوسرے کے متعاقب ہونا ایک ایسے نظام اور ایسے اصول کے تحت ہے جس نظام کا خالق اور جن اصول کا محافظ ایک ایسا وجود ہے جو دانا و بینا اور علیم و حکیم ہے۔ جن کی ہر بات میں حکمت اور دانائی کے خزانے ہیں۔ یہ انسان ہیں جن کی فکر کا دائرہ محدود اور جن کی سوچ کی دنیا چھوٹی ہے۔ انسان گرمی کی شدت میں چینختا ہے تو سردی کی آمد پر بے ہوش ہو جاتا ہے۔ غم میں تڑپتا اور مسرت میں مسکراتا ہے۔ خزاں میں اداس ہوتا ہے اور بہار میں چہکتا ہے۔ اور یہ غافل انسان بھول جاتا ہے کہ اگر کانٹے کی چھبن نہ ہو تو پھول کے حصوں میں کوئی لطف باقی نہ رہے۔

اگر غم کی تکلیف نہ ہو تو خوشی راحت بن دل میں نہ اترے۔ اور اگر خزاں کی افسردگی نہ ہو تو بہاریں بھی بے کیف آفریں محسوس نہ ہو۔ گویا جن کا باہم ساتھ ہے۔ ان کی وابستگی بھی ضروری ہے اور ان کی جدائی بھی۔

ہر خزاں کے غبار میں ہم نے

     کارواں بہار دیکھا ہے۔

تصویر میں خزاں کا منظر لائیے ۔ ہر طرف سناٹا ہے اداسی ہےویرانی ہےاور ایک ایسا خوف ہے کہ ڈر کے مارے درختوں کے پتے نیچے گر رہے ہیں۔ ان کے چہروں کی سبزی زدردی میں بدل گئی ہے۔ ان کے دل ہل رہے ہیں۔ وہ لرزتے محسوس ہوتے ہیں۔ پھول ہیں کہ انھوں نے نہ معلوم کیوں اپنا چہرہ چپھا رکھا ہے۔ وہ پرندے جو باغوں میں گیت گایا کرتے تھے ایک سکتے کے عالم میں ہیں۔ وہ اپنے پروں کو پھیلائے اور اپنے پروں میں منہ چھپائے بیٹھے ہیں۔

ایسے عالم یاس میں یکا یک موسم پلٹتا ہے۔ اللہ تعالیٰ برہنہ درختوں کے پھلیے ہوئے ہاتھوں کی دعاؤں کو قبول کر لیتا ہے۔ اور انھیں سبز لباس عطا کرتا ہے۔ اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے۔ پتے ہی نہیں نکلتے پھل اور پھول بھی آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ فطرت کا حسن خواب سے جاگتا اور انگڑائی لیتا ہے یہاں تک کہ مٹی سے بھی حسن پھوٹتا ہے۔ اور کائنات کی تمام افسردگی غنچہ و گل کی محفل آرائیوں میں ڈوب جاتی ہے۔ پھولوں میں شباب انگڑائیاں لیتا ہوا اور ہوا میں مستی آجاتی ہے۔ وہی ہوا جو چمن میں آگ برسایا کرتی تھی ۔ ناز و ادا سے اٹھلاتی ہوئی آتی، غنچوں کا گد گداتی اور انھیں پھول بنا دیتی ہے۔

بہار کےموسم میں صبع مسکراتی محسوس ہوتی ہے۔ شام کے جلوؤں میں کیف و نشاط کی ایک دنیا سمٹ جاتی ہے۔ رات کو ستاروں کی محفل جمتی اور چاند دل کی ظلمتوں کو نورانی بناتا ہے۔ باغ تو پھر باغ ہے صحراؤں اور ریگستانوں کی فضا بھی رنگین ہو جاتی ہے۔ وہی سورج کی کرنیں جو سبزہ گل کو جلس کر دیتی تھیں آج ہاتھ بڑھا بڑھا کر سبزہ و گل کی بلائیں لے رہی ہیں۔ بلبلوں نے اپنے نغموں سے پورے چمن کو سر پر اٹھا رکھا ہے۔ چڑیوں کے گانے ہیں کہ اثر آفرینی کے لیے کسی ساز کی ضرورت ہی نہیں۔ بھونرے پھولوں کے مہمان ہیں۔ اور تتلیاں بے اختیار انداز میں پھولوں پر نثار ہو رہی ہیں۔ گھٹائیں عالم مستی میں جھوم رہی ہیں۔ اور ہوائیں پھوار برسا رہی ہیں۔ یہی کالی گھٹائیں سفید شفاف بارش کا ذریعہ ہیں۔ اور یہی ہوائیں سرمایہ صبر و قرار ہے۔ۤ؎

غنچہ غنچہ اپنے فطری حسن میں ڈوبا ہوا

پتی پتی اپنے اصل رنگ پر آئی ہوئی

فصل کی رگ رگ میں گردش کر رہا ہے خون گرم

کوکتی ہوئیں کوئلیں فرقت کی گھبرائی ہوئیں

بلبلوں کے دل نشین نغموں سے جنگل مست ہیں

عشق کے عالم پہ ہے ایک بے خودی چھائی ہوئی۔



About the author

shahzad-ahmed-6415

I am a student of Bsc Agricultural scinece .I am from Pakistan. I belong to Haripur.

Subscribe 0
160